بنگلہ دیش: حکومت مخالف پرتشدد احتجاج، 34 ہلاک

اپ ڈیٹ 24 جنوری 2015
بنگلہ دیش میں بم دھماکے میں زخمی ہونے والے نوجان کی والدہ ہسپتال میں اداس بیٹھی ہیں۔ فوٹو اے پی
بنگلہ دیش میں بم دھماکے میں زخمی ہونے والے نوجان کی والدہ ہسپتال میں اداس بیٹھی ہیں۔ فوٹو اے پی

ڈھاکا: بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد اور مرکزی اپوزیشن رہنما کے درمیان جاری چپقلش کے باعث پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے دوران مخالفین کے ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک 34 لوگ ہلاک اور بڑی تعداد میں زخمی ہو چکے ہیں۔

ایک بار پھر سر اٹھانے والے اس سیاسی بحران سے پہلے سے شدید دباؤ کا شکار گارمنٹ کی صنعت کی بیرون ملک بھیجے جانےوالی 24 ارب ڈالر کی شپمنٹ تعطل کا شکار ہو جائے گی۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی جماعت نے گزشتہ سال پانچ جنوری کو ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور اب انہوں نے وزیر اعظم اور ان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مستعفی ہو جائیں اور ایک نگراں انتظامیہ کی زیر نگرانی انتخابات کرائیں۔

وزیر اعظم نے ناصرف اس مطالبے کو مسترد کردیا بلکہ اہم اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت پر تنقید کرنے والے میڈیا کے اداروں پر بھی پابندیاں لگا دیں جس کے باعث حکومتی مخالف احتجاج شروع ہوئے۔

پانچ جنوری کو انتخابات کی پہلی سالگرہ کے موقع پر پرتشدد واقعات مزید سنگین صورتحال اختیار کر گئے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ آتش زنی کے حملوں میں اب تک 25 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس میں سے دو جمعہ کو ہلاک ہوئے جبکہ آٹھ افراد پولیس سے جھڑپوں اور ایک بم دھماکے میں ہلاک ہوا۔

پولیس اور عینی شاہدین نے بتایا کہ دارالحکومت ڈھاکا اور ملحقہ اضلاع میں اپوزیشن جماعت کے کارکنوں نے متعدد گاڑیوں کو آگ لگا دی جس سے کم از کم 50 افراد زخمی ہو گئے جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔

پولیس نے بتایا کہ ڈھاکا میں حملہ آوروں نے پیٹرول بم سے بس پر حملہ کیا جس سے 29 افراد زخمی ہو گئے جن میں سے نو کی حالت تشویشناک ہے۔

وزیر صنعت امی حسین نے بتایا کہ انتخابات کی سالگرہ سے اب تک اپوزیشن جماعتوں کے سات ہزار سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے ۔

اپوزیشن نے کارکنوں کی گرفتاری اور رہنماؤں سے بدتر سلوک کے خلاف اتوار کی صبح سے ایک بار پھر 36 گھنٹے کی ملک گیر ہڑتال کی کال دی ہے۔

وزیر صحت محمد نسیم نے کہا کہ معصوم عوام کے قتل کا حکم دینے پر خالدہ ضیا کے خلاف قانونی کارروائی کا سوچا جا سکتا ہے۔

محمد نسیم نے کہا کہ انہیں معصوم انسانوں، بچوں، خواتین اور مزدوروں کا قتل فوراً روک دینا چاہیے۔

اس حوالے سے اظہار خیال کے لیے بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے رہنماؤں سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے اس صورتحال پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے تما بنگلہ دیشی جماعتوں پر مذاکرات کرنے پر زور دیا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

imran Jan 25, 2015 02:34pm
When system of the house is given in the hands of two ladies that's what happens. Not a surprising behavior from a women run state whose opposition leader is also a woman. They have their emotional days every month. ;) don't be surprised