والدین کا خوف: بچوں کو اسکول کیسے بھیجیں

26 جنوری 2015
ایک والدہ اپنے بچوں کو آرمی پبلک اسکول دوبارہ کھلنے پر چھوڑنے جارہی ہیں — اے پی
ایک والدہ اپنے بچوں کو آرمی پبلک اسکول دوبارہ کھلنے پر چھوڑنے جارہی ہیں — اے پی

کیا آج کا دن ہی وہ دن ہے جب میں اپنے بچوں کو اسکول بھیجوں، اور پھر ساری زندگی کے لیے پچھتاؤں؟ یہ وہ مشکل ترین سوال ہے جس کے ساتھ ہر صبح پاکستان کے والدین بیدار ہوتے ہیں۔

ہمارے بچوں پر منڈلاتے دہشتگردی کے سائے نے ہم والدین کو ایک ذہنی کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو ایسے ماحول میں بڑا کر رہے ہیں، جہاں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے جیسا بنیادی اور بے ضرر حق بھی قومی بحث بن چکی ہے۔

سردیوں کی چھٹیوں میں اضافے کے بعد جب اسکول دوبارہ کھلے، تو والدین چاہتے تھے کہ قومی سکیورٹی پالیسی اسکولوں میں ان کے بچوں کا تحفظ یقینی بنائے۔ سکیورٹی اقدامات بلاشبہ حوصلہ افزا ہیں، اور اسکول اپنے طلبا کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے حکومتی گائیڈ لائنز پر بھی عمل کر رہے ہیں۔

لیکن اسی وقت دہشت زدہ شہری پشاور حملے کے بعد دہشتگردوں کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن پر دہشتگردوں کے ممکنہ ردِ عمل سے بھی خوفزدہ ہیں۔ اس خوف کو تقویت تب ملتی ہے جب دھمکی آمیز ویڈیوز ریلیز ہوتی ہیں، نامور تعلیمی اداروں کے اندر تابوت پھینکنے کی افواہیں گردش کرتی ہیں، یا اسکول انتظامیاؤں کو مبینہ طور پر دھمکی آمیز خطوط موصول ہوتے ہیں۔ ہم اس خوف کے جائز ہونے یا نہ ہونے پر بحث کر سکتے ہیں، لیکن اسکولز میں کم حاضری اس بات کی دلیل ہے کہ ہم نفسیاتی جنگ ہار رہے ہیں۔

پڑھیے: سانحہ پشاور کے بعد آرمی پبلک اسکول آج سے کھل گیا

ہم ایک مضبوط قوم رہے ہیں، اور ہم میں زندگی کی تلخیوں اور مصیبتوں کو سہنے اور ان پر مسکرانے کی ایک حیران کن قابلیت موجود رہی ہے۔ ہم سیاسی ہلچلوں، معاشی عدم استحکام، قدری آفات اور سماجی شورشوں کے ادوار میں بھی مضبوطی سے اپنی جگہ موجود رہے ہیں۔

لیکن پشاور کے حالیہ سانحے کے بعد اپنے بچوں کو کھو دینے کا خوف اب ہمیں چاروں طرف سے گھیرتا جارہا ہے۔

پاکستان اب امید کی شدید کمی سے گزر رہا ہے۔

اس تازہ ترین قومی سانحے پر میڈیا کی کوریج افسوسناک اور ناامیدی سے بھری ہوئی ہے۔ ایک طرف یہ 16 دسمبر کی اذیت کو بھی نمایاں انداز میں پیش کرتا ہے، تو دوسری طرف ہمیں ہمارے حقیقی دشمن کی شناخت کے بارے میں بھی کنفیوژ رکھے ہوئے ہے۔

جن لوگوں کا طالبان کا حامی ہونا واضح طور پر معلوم ہے اور جنہوں نے حملے کی مذمت نہیں کی، ان کو کوریج دینا غیر ضروری تھا۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں وہ لیڈر جو عوام کی رائے سازی کر سکتے ہیں اور مذہبی و سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں، طالبان کو حقیقی دشمن قرار دینے سے گریز کرتے ہیں۔

اس کے بجائے یہ لوگ جان بوجھ کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں، اور ان کے سامنے ہندوستان کو دشمن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول پر ڈرامائی اور ناامیدی سے بھرپور میڈیا کوریج کو دیکھتے ہوئے یہ باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ میڈیا کو اب بھی خود میں پروفیشنل ازم لانے کے لیے کافی محنت کرنی ہوگی۔ یہ عوام کو امید، دلاسا، اور مرہم دینے میں ناکام ہوتا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیے: نیوز چینل کوریج کرنا کب سیکھیں گے؟

آرمی پبلک اسکول میں آرمی چیف کی موجودگی حوصلہ افزا تھی۔ اسی طرح باکسر عامر خان اور قومی کرکٹ ٹیم کی وہاں موجودگی بھی کافی ضروری تھی۔ عالمی سلیبریٹیز بشمول ہندوستان سے تعلق رکھنے والوں نے بھی اخبارات اور میگزینز میں مضامین لکھے اور ہماری میڈیا پر بھی نظر آئے۔

لیکن یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ ہمارے اپنے سلیبریٹیز اس موقع پر میڈیا سے غائب رہے۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یا وہ اس سے لاتعلق ہیں، یا بولنے سے ڈرتے ہیں۔

ہر معاشرے میں کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جنہیں رول ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کے الفاظ عام ذہنوں پر اثر چھوڑ جاتے ہیں، اور ان کا عزم عوام کو نئی طاقت دیتا ہے۔ پاکستانی طلبا اور والدین قوم کے رائے ساز لیڈروں کی جانب سے حوصلہ افزائی چاہتے ہیں، ان لوگوں کی جانب سے جو عمل کے ذریعے لوگوں کو اس بات کا یقین دلا سکیں کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے نہ گھبرائیں۔

سلیبریٹی والدین اور آرمی پبلک اسکول کے وہ اساتذہ و طلبا جو حملے کے بعد اسکول دوبارہ شروع کر چکے ہیں، ان کے بیانات گر چکے قومی مورال کو بلند کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس قومی سانحے نے ہمیں توڑ کر رکھ دیا ہے، لیکن یہی چیز ہماری ٹوٹ چکی قوم کو واپس کھڑا کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

پڑھیے: لاشیں ہی لاشیں

دہشتگردوں نے ہماری قومی نفسیات پر حملہ کیا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم نارمل زندگی کی طرف واپس لوٹیں اور اپنی زندگیاں دہشتگردوں سے واپس لیں۔ ہم نے یہ پہلے بھی کیا ہے، ہم ایک بار پھر یہ کریں گے۔

ہمیں اپنے بادبانوں کے پھیلنے کے لیے صرف تھوڑی سی ہوا کی ضرورت ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Adeel Jan 26, 2015 07:08pm
True!!!