سات جنوری 2015 کو جب دہشت گردوں نے پیرس کے ہفت روزہ جریدے چارلی ہیبڈو میں بارہ صحافیوں کو ہلاک کیا تو میرا ذہن امریکی ریاست ٹیکساس کے علاقے پیرس کی جانب چلا گیا، وہ قصبہ جسے " جسے دنیا کا دوسرا بڑا پیرس" کہ جاتا ہے۔

مگر کیوں؟

اور اس کی وجہ ٹیکساس کے قدامت پسند کرسچن قصبے پیرس کے میئر ہیں جو پاکستانی نژاد امریکی مسلمان ہیں جن کا نام ڈاکٹر ارجمند ہاشمی ہے۔

اسی کی دہائی میں جب وہ ڈاﺅ میڈیکل کالج میں زیرتعلیم تھے تو بظاہر غیرسیاسی نظر آتے تھے اور انہیں پاکستان میں سابق صدر پرویز مشرف کے طبی معالج کے طور پر زیادہ جانا جاتا ہے۔ اپنی نوجوانی میں وہ محمد علی جناح سے متاثر تھے مگر امریکا کو اپنا گھر بنالینے کے بعد انہوں نے جلد ہی نئے رول ماڈل تلاش کرلیے جارج واشنگٹن اور ابراہم لنکن۔

ٹیکساس کے پیرس کے رہائشیوں کے لیے ڈاکٹر ہاشمی بس ان کے میئر ہیں اور ہاں ان کے کارڈیالوجسٹ بھی، مگر فرانسیسی دارالحکومت میں تشدد کے بعد دنیا بھر میں پیدا ہونے والا اشتعال دیکھتے ہوئے ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ٹیکساس کے قصبے پیرس کے رہائشی کس طرح تشدد پر ردعمل کا اظہار کرتے ہیں جنھوں نے ایک مسلم میئر کو منتخب کیا اور ڈاکٹر ہاشمی کا انٹرویو پیش خدمت ہے۔

آپ نے میئر کے انتخاب کے لیے کھڑا ہونے کا فیصلہ کیوں کیا؟

اس کی متعدد وجوہات ہیں، دیگر رہائشیوں کی طرح میں بھی مقامی کونسل کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھا، ہم ملازمتوں سے محروم ہورہے تھے اور مقامی قیادت مناسب طریقے سے مسئلے پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہورہی تھی۔ معیشت سے ہٹ کر بھی عام معاملات میں بھی ناکامیاں نظر آرہی تھیں، ہمارا انفراسٹرچکر پرانا اور گرنے کے قریب تھا، میں یہاں مقیم ہوں اور اچھی پریکٹس بھی کررہا ہوں اسی لیے مجھے ذمہ داری کا احساس ہوا اور میں نے برادری کو اپنی خدمات کی پیشکش کی۔

کس طرح کی رکاوٹوں کا آپ کو سامنا کرنا پڑا؟

میں پاکستانی نژاد تارکین وطن ہوں جو ٹیکساس میں مقیم ہے اور لوگ میرے ارادوں کے حوالے سے شکوک و شبہات رکھتے تھے، کچھ تو پوچھتے تھے کہ کیا میں ایک مسجد تعمیر کروں گا یا شریعت نافذ تو نہیں کروں گا۔

مگر امریکا کی سب سے اچھی چیز یہ ہے کہ یہاں کے لوگ بات سننے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور آپ ان کے سامنے اپنا موقف رکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے مقامی رہائشیوں کے سامنے وضاحت پیش کی کہ جس طرح ہم سرکاری فنڈز سے گرجا گھر تعمیر نہیں کرسکتے تو اسی طرح مساجد کی تعمیر بھی نہیں ہوسکتی۔

میں نے انہیں بتایا کہ میں امریکا میں اس لیے مقیم ہوں کیونکہ میں یہاں کے سیاسی نظام سے محبت کرتا ہوں۔ یہ نظام کام بھی کررہا ہے تو میں کیوں اسے تبدیل کروں گا؟ میں نے یہ وضاحت بھی کی کہ اگر میں کسی ایسے ملک میں رہنا چاہوں جہاں شریعت نافذ ہے تو مجھے سعودی عرب چلے جانا چاہئے۔ ہم نے اس ملک کا انتخاب کیا اور کسی نے ہمیں یہاں آنے پر مجبور نہیں کیا، میں اپنے مذہبی تعلیمات پر عمل کرتا ہوں مگر ہم سب اسی قصبے میں رہتے ہیں اور یہ ہمارا قصبہ ہے۔

یہاں عوامی خدمات کے شعبے میں پاکستانی نژاد امریکی شہریون کی تعداد اتنی کم کیوں ہے؟

عام طور پر پاکستانی اپنے گروپس کی حد تک رہتے ہیں، ہم اپنی برادریوں میں کافی سرگرم ہیں اور سرگرمیوں جیسے ایسوسی ایشن آف فزیشنز آف پاکستانی (اے پی پی این اے) میں حصہ لیتے ہیں۔ ہم پاکستان کی سیاست اور اس میں حصہ لینے میں دلچسپی لیتے ہیں اور ہم یہاں اپنی مالی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے کام کرتے ہیں تو ہماری ترجیحات مختلف ہیں۔

مگر میرا ماننا ہے کہ پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کی سرکاری عہدوں کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کی مرکزی وجہ ناکامی کا خوف ہے، وہ الیکشن میں ہارنا نہیں چاہتے۔

ہماری برادری اپنی حد سے باہر قدم نہیں نکالنا چاہتی مگر یہاں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ اب ہمارا ملک ہے اور یہ ہماری برادری ہے ہمیں لازمی طور پر سیاست میں حصہ لینا چاہئے اور آنے والی نسلوں کے لیے مثبت تبدیلی کو یقینی بنانا چاہئے۔

میں نے اور میری بیوی نے اپنے بچوں کو سماجی ذمہ داری اٹھانے کے اھساس کے ساتھ پالا ہے، ہم نے مقامی سیاست میں ان کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی ہے یقیناً انہیں تدریسی اور پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنی چاہئے مگر انہیں کبھی بھی عوامی خدمات میں حصہ لینے کے عمل سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔

کیا آپ کے خیال میں ایک کارڈیالوجسٹ ہونے نے آپ کے انتخاب میں مدد کی؟

مجھے یقین ہے کہ اس سے مدد ملی، کیونکہ میں اس قصبے میں پریکٹس کرتا ہوں اور لوگ مجھے جانتے ہیں۔ مگر طبی سہولیات فراہم کرنے والے طور پر میرا اپنے حلقہ انتخاب سے مختلف تعلق ہے۔ مریض میرے پاس معاونت کے لیے آتے تھے مگر جب میں مہم چلا رہا تھا تو میں تعاون کے لیے ان کے پاس گیا۔

آپ نے اس قصبے کے لیے اپنا کیا مقصد طے کررکھا ہے؟

میرا مقصد اور میری انتخابی مہم کا وعدہ ہر ایک کی ترقی، مقامی حکومت میں عوامی شمولیت کو بڑھانے اور اوپن ڈور پالیسی تھی۔ میری انتظامیہ کھلی اور مکمل طور پر شفاف ہے۔

کونسل کے ہر اجلاس میں لوگوں کو کوش آمدید کہا جاتا ہے چاہے وہ میرے نکتہ نظر کے مخالف ہی کیوں نہ ہو، میں شمولیت کا ماحول پیدا کرنا چاہتا ہوں، میرے عہد کے دوران مقامی فائر ڈیپارٹمنٹ اسٹیٹ آف دی آرٹ فائر ٹرکس لینے کے قابل ہوسکا، اس کے علاوہ ہم نے 45 ملین ڈالرز سے پانی و سیوریج نظام کو جدید بنانے کا کام بھی کیا۔

مجھے یہ کہتے ہوئے فخر ہوتا ہے کہ میری انتظامیہ نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق لوگوں کو صحت، تحفظ اور معیاری زندگی جیسی سہولیات فراہم کی ہیں۔

ماحولیاتی مسائل پر آپ کا کیا موقف ہے خاص طور پر کی اسٹون ایکس ایل پائپ لائن کے حوالے سے جو ممکنہ طور پر آپ کے قصبے سے گزرے گی؟

میں سبز توانائی یعنی ہوا، پانی اور شمسی توانائی کا حامی ہو۔

کیا یہ موقف قدامت پسند ری پبلکن کو آپ مقابل لاسکتا ہے؟ آپ اس وقت کیا کریں گے جب کی اسٹون ایکس ایل پائپ آپ کے قصبے سے گزرے گی؟

میں اس کے طبی اثرات پر تحقیق کروں گا اور اقتصادی فوائد جاننے کی کوشش کروں گا، ہم توازن چاہتے ہین اور میں اس بات کو یقینی بناﺅں گا کہ قصبے کے رہائشی تمام فیصلوں کا حصہ بنیں۔

اگر آپ فرانس کے پیرس کے میئر ہوتے تو حالیہ قتل عام پر کیسے ردعمل کا اظہار کرتے؟ کیا آپ غیرمشروط طور پر اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں؟

خیر میں پیرس کا میئر نہیں تو میرے لیے اس پر ردعمل ظاہر کرنا مشکل ہے، مگر بے مقصد اور بے وجہ قتل انتہائی افسوسناک امر ہے اور اس کی غیرمشروط طور پر مذمت کی جانی چاہئے۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ کو فتح کیا تو انہوں نے ہر ایک کو معاف کردیا۔ میں نہیں جانتا کہ ان انتہاپسندوں نے کب اسلام پر قبضہ کرلیا یہ بہت زیادہ پریشان کن ہے اور یہ بہت افسردہ کردینے والا خیال ہے کہ معتدل مسلمانوں کو ان بنیاد پرستوں نے مغوی بنالیا ہے۔

تو آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ مکمل طور پر اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں اور توہین مذہب کا تصور نہیں رکھتے؟ کیا آپ پہلی ترمیم کی حمایت کرتے ہیں؟

جی ہاں یقیناً میں پہلی ترمیم کی حمایت کرتا ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں