امریکا کی ملا فضل اللہ کو زندہ یا مردہ پکڑنے کی یقین دہانی

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2015
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عمر میڈیا پروپیگنڈا ونگ کی ایک ویڈیو سے لی گئی تصویر میں ٹی ٹی پی سربراہ ملا فضل اللہ نظر آرہے ہیں—۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عمر میڈیا پروپیگنڈا ونگ کی ایک ویڈیو سے لی گئی تصویر میں ٹی ٹی پی سربراہ ملا فضل اللہ نظر آرہے ہیں—۔

اسلام آباد: امریکا نے پاکستان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ ملا فضل اللہ کو افغانستان میں مارنے یا زندہ پکڑنے کی مکمل یقین دہانی کرادی ہے، جب کہ گرفتاری کی صورت میں انھیں ہر صورت پاکستان کے حوالے کر دیا جائے گا۔

اسلام آباد میں سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عالم خٹک نے پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے ان کیمرہ اجلاس میں جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکا کے حوالے سے بریفنگ کے دوران سکیورٹی صورتحال اور افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا۔

سیکریٹری دفاع کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے امریکا کو پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ہندوستانی مداخلت کے ناقابل تردید ثبوت پیش کیے ہیں۔

کمیٹی اراکین کو بتایا گیا کہ امریکا رواں برس کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت پاکستان کو ایک ارب امریکی ڈالر فراہم کرے گا جبکہ سکیورٹی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے دفاعی آلات بھی فراہم کیے جائیں گے.

کمیٹی چیئرمین مشاہد حسین اور دیگر اراکین نے وزیر دفاع خواجہ آصف کی اجلاس میں غیر موجودگی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔

یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو سانحہ پشاور کے اگلے ہی روز آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کابل کا دورہ کیا تھا ، جہاں انھوں نے افغان سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقات میں طالبان کمانڈر ملا فضل اللہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں:آرمی چیف کی افغان صدر سے ملاقات، ملا فضل اللہ کی حوالگی کا مطالبہ

جبکہ جنوری 2014 میں امریکا کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کو 'عالمی دہشت گرد' قرار دیا جا چکا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان سوات کے امیر ملا فضل اللہ نے ابتداء میں سوات کے ایک گاؤں میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے سوات میں تبلیغی کاموں کے لیے ایک ایف ایم ریڈیو بھی قائم کیا جس پر وہ اکثر خطاب بھی کرتے تھے۔

انہوں نے وادی میں سخت اسلامی قوانین کے نفاذ کی بھی کوشش کی اور اس مہم کے دوران نہ صرف ان کے جنگجوؤں نے اسکول تباہ کیے بلکہ لوگوں کو عوامی مقامات پر کوڑے مارے گئے اور ان کے سر بھی قلم کیے گئے۔

سوات میں فوجی آپریشن سے قبل حکومت پاکستان نے مولوی فضل اللہ کو پکڑنے میں مدد دینے پر انعام کا اعلان کیا تھا اور جون 2009 میں ان کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے سے بڑھا کر پانچ کروڑ روپے کر دی گئی تھی۔

اس علاقے میں پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد 2009 کے آخر میں فضل اللہ افغانستان کے صوبہ نورستان فرار ہوگئے، جہاں وہ اب بھی مقیم ہیں۔

ملا فضل اللہ نومبر 2013 میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کے سربراہ منتخب ہوئے تھے، ان پر افغانستان میں قیام کے باوجود پاکستانی سرزمین پر شدت پسندی کی کارروائیاں کروانے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان نے 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی، جس کے نتیجے میں کم ازکم 150 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر معصوم بچے تھے۔

ٹی ٹی پی سربراہ بننے سے قبل ملا فضل اللہ نے اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ ستمبر 2013 میں پاک آرمی کے میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کے قتل کے ساتھ ساتھ اکتوبر 2012 میں سوات میں نوجوان طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے میں بھی ان ہی کا ہاتھ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں