مری: اپنے پسندیدہ پہاڑی مقام مری میں ایک دن آرام کرنے کے بعد وزیر اعظم نے منگل کو یہاں اپنی رہائش گاہ پر دو اہم اجلاس منعقد کیے۔

ان ملاقاتوں میں قومی ایکشن پلان اور توانائی بحران پر غور کیا گیا ۔

اجلاسوں میں پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے شرکت کی۔

اطلاعات کے مطابق،ملاقاتوں میں وفاقی کابینہ کے کچھ ارکان کے مستقبل پربھی غور ہوا۔

چار پیراگراف پر مشتمل سرکاری بیان میں بتایا گیا کہ وزیر اعلی پنجاب نے نواز شریف کو صوبے میں قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے آگاہ کیا۔

'اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت ملک سے دہشت گردی اور شدت پسندی ختم کرنے کیلئے پر عزم ہے۔ انہوں نے تمام صوبوں پر زور دیا کہ وہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے طریقہ کار کو تیزی سے مکمل کریں'۔

تاہم، سرکاری بیان کے برعکس اس ملاقات میں دوسرے اہم معاملات زیادہ چھائے رہے۔

ن –لیگ میں ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی میں حد درجہ اثر و رسوخ کی حامل جوڑی شہباز –نثار نے پیٹرول اور بجلی بحران کی وجہ سے حکومت کو شرمندہ کرنے والے دو وفاقی وزیروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔

پی ایم ایل-ن کے ایک عہدے دار نے ڈان سے آف دی ریکارڈ گفتگو میں بتایا کہ دونوں نے وزیر اعظم کو خبر دار کیا کہ 'اگر دونوں وزراء کی کارکردگی ایسی ہی رہی تو سخت ردعمل دیکھنے کو ملے گا'۔

قیادت کے انتہائی قریبی سمجھے جانے والے دونوں وزراء خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی کو اس اہم ملاقات میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

ن-لیگی ذرائع نے بتایا ' اجلاس غیر معمولی نوعیت کا ہونے کی وجہ سے صرف چار شرکاء تک محدود رہا'۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں وزراء کی کارکردگی پر بحث کے بعد اجلاس میں معمول کے ایجنڈا پر تبادلہ خیا ل شروع ہوا تووزارت داخلہ اور خزانہ کے حکام بھی شامل ہو گئے۔

اطلاعات کے مطابق چوہدری نثار اور شہباز شریف نے وزیر اعظم کو واضح کر دیا کہ وہ پرفارمنس نہ دکھانے والے وزراء کو باہر کا راستہ دکھائیں اور ان کی جگہ دوسرے پارٹی رہنماؤں کو موقع دیں۔

ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف پہلے ہی وفاقی وزراء کا پرفارمنس آڈٹ مکمل کر چکے ہیں اور وہ کابینہ میں ردوبدل پر غور کر رہے ہیں۔

دوسری جانب، ن-لیگ کے ایک موجودہ رکن اسمبلی نے وفاقی کابینہ کے مختلف دھڑوں میں تقسیم ہونے سے وزیر اعظم کو درپیش مسائل پرافسوس ظاہر کیا۔

ذرائع نے یاد دلایا کہ خواجہ آصف وزیر اعلی پنجاب کی جانب سے اپنی وزارت میں مسلسل مداخلت پر خوش نہیں۔

اسی طرح، گزشتہ سال جون میں وزیر داخلہ کی کابینہ میں فیصلہ سازی پر ناراضی بھی میڈیا کی سرخیاں میں رہی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں