ایک اور دم توڑتی بیماری

اپ ڈیٹ 28 جنوری 2015
انسانی جسم میں پہنچنے پر یہ کیڑا بڑھنا شروع ہوتا ہے، اور اکثر اوقات ایک سال کے دوران ایک میٹر تک لمبا ہوجاتا ہے —OTIS Archive 1
انسانی جسم میں پہنچنے پر یہ کیڑا بڑھنا شروع ہوتا ہے، اور اکثر اوقات ایک سال کے دوران ایک میٹر تک لمبا ہوجاتا ہے —OTIS Archive 1

یہ 1980 کی دہائی کے دوسرے نصف کی بات ہے۔ امریکی صدر جمی کارٹر افریقہ کے ملک گھانا کے دورے پر تھے۔ یہاں کے ایک دور دراز گاؤں میں ان کی ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی، جسے دیکھ کر صدر کارٹر نے سمجھا کہ وہ اپنا بچہ اٹھائے ہوئے ہے۔ لیکن وہ بچہ نہیں تھا۔

وہ اس عورت کی چھاتی تھی۔

اس عورت سمیت گاؤں کی دو تہائی آبادی ایک عجیب و غریب قسم کی بیماری میں مبتلا تھی، جسے ڈریکنکیولائسز (dracunculiasis) یا اردو میں نارو کہتے ہیں۔ یہ کیڑا انسانی جسم میں تب داخل ہوتا ہے جب اس کے انڈوں سے آلودہ پانی پیا جائے۔

ایک بار انسانی جسم میں پہنچنے پر یہ کیڑا بڑھنا شروع ہوتا ہے، اور اکثر اوقات ایک سال کے دوران ایک میٹر تک لمبا ہوجاتا ہے۔

پڑھیے: پولیو ویکسین 'حرام' نہیں

ابتدا میں تو کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ کھال میں سے نکلنا شروع کرتا ہے، اور تیس دن میں پوری طرح نکل پاتا ہے۔ اس بیماری سے شاید ہی کبھی موت واقع ہوتی ہے، لیکن متاثرہ شخص اپنے روز مرہ کے کام انجام دینے سے قاصر رہ جاتا ہے۔

جب صدر کارٹر نے 1986 میں گھانا کا دورہ کیا تھا، تو ایشیا اور افریقہ میں 35 لاکھ افراد اس کیڑے سے متاثر تھے۔ صدر کارٹر کا سامنا جس عورت سے ہوا تھا اس کے جسم میں 11 نارو موجود تھے، جن میں سے ایک اس کی چھاتی سے باہر آ رہا تھا۔

اس منظر نے صدر کارٹر کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے امریکا واپس پہنچتے ہی ایک نئے مشن کا آغاز کیا۔

صدر کارٹر نے Carter Center Guinea Worm Eradication Program شروع کیا، اور یہ عہد کیا کہ اب اس تکلیف دہ بیماری کو ایشیا اور افریقہ کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے افراد کی زندگیاں عذاب بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ایسی کوئی دوا موجود نہیں ہے جو متاثرہ شخص کا علاج کر سکے، اور نہ ہی اس بیماری کو روکنے کے لیے کوئی ویکسین موجود ہے۔ لیکن پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور معمولاتِ زندگی میں تھوڑی سی تبدیلی لا کر اس بیماری کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔

اس کیڑے کے لاروے صرف پانی کے آلودہ ذخائر تک ہی محدود ہوتے ہیں، جبکہ یہ صرف ایشیا اور افریقہ میں پایا جاتا ہے، اس لیے اس بیماری کا دنیا سے مکمل خاتمہ ممکن قرار دیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ کیونکہ کیڑا پیروں میں سے نکلنا شروع کرتا ہے، اس لیے نظر آنے پر متاثرہ شخص کو الگ کیا جا سکتا ہے۔

پانی فلٹر کرنا، پینے کے پانی کی فراہمی بہتر بنانا، اور ہر علاقے میں جہاں یہ پایا جاتا ہے، وہاں پانی میں اس کے انڈوں کے خاتمے کی دوائیں چھڑکنا کچھ مزید اقدامات ہیں جن سے اس بیماری کو روکا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیے: پولیو کے مسیحا

مئی 1981 میں عالمی ادارہ صحت نے یہ تجویز دی کہ اگر اس دہائی میں دنیا سے اس بیماری کا خاتمہ کیا جاسکے، تو یہ اس دہائی کی کامیابی کی دلیل ہوگی۔

اور اب عالمی ادارہ صحت، یونیسیف، اور کارٹر سینٹر کے مشترکہ اقدامات کی بدولت افریقہ اور ایشیا کے 21 ممالک میں لاکھوں افراد کی تکالیف کا سبب بننے والا یہ بیماری اب اپنے خاتمے کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے۔

30 سالوں کی محنت، کڑی نگرانی، رپورٹنگ، اور متاثرہ علاقوں کے جائزے کی وجہ سے کیسز کی تعداد لاکھوں سے گھٹ کر 2014 میں صرف 126 رہ گئی ہے، جو کہ 99.99 فیصد کے برابر ہے۔

آگاہی اور سادہ اقدامات کے ذریعے کس طرح بیماریوں کو شکست دی جا سکتی ہے، نارو کی مثال سے یہ صاف ظاہر ہے۔ یہ بیماری پہلی طفیلی (parasitic) بیماری، جبکہ مجموعی طور پر دوسری بیماری ہوگی جس کا دنیا سے خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔

اس سے پہلے دنیا سے چیچک (smallpox) کا خاتمہ ہو چکا ہے، جو زمانہ قدیم سے انسانوں میں اموات کا سبب بن رہی تھی۔ 1979 میں عالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا کہ دنیا سے چیچک کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اس کا آخری کیس 1977 میں رپورٹ کیا گیا تھا۔

اب ہم گھر میں موجود مسئلے کی طرف آتے ہیں۔

صرف پاکستان اور دو دیگر ممالک ہیں جو دنیا سے پولیو کے مکمل خاتمے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

جانیے: پولیو کے 80 فیصد کیسز کا ذمہ دار پاکستان ہے

افریقہ میں تو معاشرتی سطح کے سادہ اقدامات رنگ لائے، لیکن ہمارے معاشرے کے کچھ حصے ایسے ہیں، جن کی وجہ سے پولیو وائرس اب بھی زندہ ہے اور دنیا کے لیے خطرے کا باعث ہے۔

جب دنیا سے کسی بیماری کے خاتمے کی خبر سنی جائے، تو بلا اختیار آپ کو سائنس اور انتھک محنت کی طاقت پر یقین آنے لگتا ہے۔ لیکن جب آپ اپنے ملک میں پولیو ورکرز کے قتل کی خبر سنیں، تو امید کی روشنی مدہم پڑنے لگتی ہے۔

لیکن مجھے یقین ہے کہ نارو کے بعد دنیا سے جس اگلے بیماری کا خاتمہ ہوگا، وہ پولیو وائرس ہو گا۔ بل گیٹس نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اگلے 15 سالوں میں پولیو سمیت تین مزید بیماریاں دنیا سے ختم کر دی جائیں گی۔ لیکن اس کامیابی کے حصول کے لیے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے قوانین کے مطابق اگر تین سال تک کسی بیماری کا کوئی کیس رپورٹ نا ہو، تو ہی اس کے خاتمے کی سند جاری کی جاتی ہے۔ اس لیے پولیو کم از کم بھی 2018 تک ہی ختم ہو پائے گا۔

باقی دنیا مقصد کے حصول کی جانب بڑھ رہی ہے، اور جیسا کہ بل گیٹس کا کہنا ہے، ساری نظریں اب پاکستان پر ہیں۔

اس مقصد کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دیکھتے ہوئے میں پولیو ورکرز کے عزم کو سلام پیش کرتا ہوں، جو بچوں کو ویکسین پلانے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔

کل ہی میں نے یہ خبر سنی کہ ناظم آباد میں پولیو ورکرز کی حفاظت پر مامور ایک پولیس اہلکار کو قتل کر دیا گیا۔

میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ تیسری بیماری کا خاتمہ جلد ممکن نظر نہیں آتا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں