اسلام آباد: وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے کہا کہ چند دینی مدارس مسلم ممالک سے مالی معاونت حاصل کر رہے ہیں اور اکثر اوقات ان کو ملنے والی رقوم کی تفصیلات کا پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فنڈنگ میں مشرق وسطیٰ کے ممالک سعودی عرب، کویت، قطر، ایران اور متحدہ عرب امارات ملوث ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق ڈپٹی چئیرمین صابر بلوچ کی صدارت میں سینیٹ کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران انہوں نے کہا کہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2013کے تحت غیر قانونی تفصیلات کی نشاندہی کی جاتی ہے اور اسی ایکٹ کے تحت مدرسے کو پیسوں کی منتقلی کی نگرانی بھی کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی کے تناظر میں وزارت داخلہ ایسے چند مدارس سے آگاہ ہے اور غیر ملکی فنڈنگ کے باعث ایسے مدارس کو مخصوص درجہ بندی سے منسلک کیا گیا ہے۔

سینیٹر صغرٰی امام نے کہا کہ آئی جی پنجاب اور وزیر مملکت داخلہ کے بیانات میں تضاد ہے، آئی جی پنجاب نے کہا تھا کہ پنجاب میں دینی مدارس کو غیر ملکی امداد نہیں مل رہی،وزیر مملکت برائے داخلہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ دینی مدارس کو غیر ملکی امداد مل رہی ہے، حکومت غیر ملکی فنڈنگ کے معاملے پر اپنا موقف واضح کرے۔

وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے کہا کہ وہ آئی جی پنجاب کے بیان کا دفاع نہیں کرسکتے۔

صغرٰی امام نے معاملے پر ڈپٹی چئیرمین صابر بلوچ سے مطالبہ کیا کہ سوال کا درست جواب نہیں دیا گیا لہٰذا یہ سوال استحقاق کمیٹی کے سپرد کیا جائے جس پر ڈپٹی چئیرمین نے سوال اسحتقاق کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے ہدایت کی کہ کمیٹی آئی جی پنجاب کو طلب کرکے ان سے معاملے پر باز پرس کی جائے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے 2008سے اب تک اسلام آباد سے برآمد ہونے والے گولہ بارود کی تفصیلات سینیٹ میں پیش کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ 7 سال میں 629کلوگرام دھماکہ خیز مواد اسلام آباد سے برآمد کیا گیا۔

اس کے علاوہ 188کلاشنکوف 139 رائفلیں 44 بور کی، ٹرپل ٹو بور رائفل 82 برآمد کی گئیں، 4510 پستول، 294 ریوالور، 611 بارہ بور بندوقیں،901 میگزین، 5ماوزر، 219چاقو، 49ہیندگرینیڈ، 14خودکش جیکٹیں، 7ایم پی 5رائفلیں برآمد کی گئیں۔

بلیغ الرحمان نے کہا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے کسی بھی سابق وزیر داخلہ کو سرکاری گاڑی اور اسکواڈ فراہم نہیں کیا گیا۔

بعدازاں سینیٹ کا اجلاس پیر کی سہہ پہر 4بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

احمد سکھانی Jan 31, 2015 10:51pm
اس پر تو سب متفق ہیں کہ مدارس کو بیرون ملک سے چندہ ملتا ھے۔ اس کا ایک ثبوت ہمارے شہروں میں موجودمدارس کی عظیم الشان عمارتیں اور مھتمم کا شاہانا طرز زندگی ھے ۔مگر کیا بیرون ملک سے لیا گیا چندہ صحیح مصرف پر خرچ بھی ہوتا ھے یا نہیں ؟ جہاں تک میرا ذاتی مشاہدہ ھے تو 90 فیصد نہیں ہوتا ۔ چندہ لینے والے مھتمم (مدیر) یا سفیر رقم کا 10 فیصد ادارے پر خرچ کرتے ہیں باقی سے ذاتی اثاثے بنائے جاتے ہیں ۔ رہا سوال ثبوت نہ ملنے کا تو یہ کسی حد تک درست بھی ھے کیونکہ عرب ممالک خصوصا دبئی ،شارجہ وغیرہ میں مدرسوں کیلئے چندہ مانگنا جرم ھے ۔لہذا وہاں کے اکثر لوگ بغیر کسی رسید کے مدارس کا تعاون کرتے ہیں ۔ جب فنڈ دینے والے کے پاس کوئی ثبوت نہیں تو لینے والے کے پاس کیا ہو گا ۔ھمارے ہاں ایک مدرسہ کے مھتم نے قومی اسمبلی کی نشست کیلئے جب کاغذات جمع کرائے تو 2008 میں انہوں نے 27 ارب روپے کے اثاثے ظاھر کیئے ۔