یہ ملک کیسے چلتا ہے؟

اپ ڈیٹ 02 فروری 2015
— اے پی
— اے پی

چند برس قبل کی بات ہے، اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں ہمارے بھائی کے ساتھ جرمنی کا ایک گورا پڑھتا تھا۔ گورے کو وطنِ عزیز کے دیہات دیکھنے کا شوق چڑآیا تو وہ ہمارے گاؤں آ کر چند روز غریب خانے میں مہمان رہا۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ گورا دن بھر گھومتا پھرتا اور رات کو ہم لوگوں کے ساتھ ایک کچے کوٹھے میں آگ کے الاؤ کے گرد گھاس سے بنے ’’قالین‘‘ پر بیٹھ کر تا دیر گپیں ہانکتا۔

وہ اردو سمجھتا تھا سو اسے ہماری دیہی زندگی کے مطالعے میں چنداں مشکل پیش نہ آئی۔ قبل ازیں وہ اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران پاکستانیوں کے چال چلن کا سیر حاصل ’’مطالعہ‘‘ کر چکا تھا۔

مغرب سے اپنے تمام تر روایتی بخل کے باوجود ہم تسلیم کرتے ہیں کہ گورا حالات کے ادراک کی معقول صلاحیت کا حامل تھا۔ دوسرے ہی دن اس نے غیر اخلاقی قسم کے سوالات اٹھانے شروع کر دیے۔ رات کو ہماری ساری مہمان نوازی پر پانی پھیرتے ہوئے کہنے لگا ’’میں حیران ہوں کہ تمہارا ملک چل کیسے رہا ہے؟‘‘ اس نے کہا کہ تم لوگ کوئی کام نہیں کرتے، پھر کاروبار حیات کیسے چلتا ہے؟ ہم نے اس کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے اخذ کیا کہ اسے سب سے زیادہ حسد ہم لوگوں کے پاس موجود وقت کی وافر نعمت سے ہے۔

گورے نے اپنی ’’بے فضول‘‘ گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تمہارے ہاں پرائیویسی کا کوئی تصور نہیں۔ جب میں صبح کے وقت تمہاری بیٹھک کے صحن میں دھوپ سینکنے بیٹھتا ہوں تو گلی میں سے جو بھی گزرتا ہے وہ ’’ہور سنا گوریا‘‘ کہہ کر لا محدود وقت کے لیے میرے پاس بیٹھ جاتا ہے اور میرے اور میرے ملک کا مفصل حال احوال دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پر اپنے گراں قدر خیالات سے بھی مجھے نوازنا شروع کر دیتا ہے۔

ہمیں اس کی پست ذہنیت پر بڑا افسوس ہوا مگرہم نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے جواب دیا ’’دیکھو گورے! یہ تمہارا غیر فطری معاشرہ نہیں، جہاں محبوبہ سے ملنے کے لیے بھی وقت لینا پڑتا ہے۔ ہماری معاشرتی اقدار وضع داری اور اعلیٰ ظرفی کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں۔ مہمان کی عزت افزائی اور اسے اپنا قیمتی وقت دینا ہماری سرشت میں شامل ہے۔ باقی دنیا کے کام تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔‘‘

گورے کی کھوپڑی میں یہ بات نہ آ سکی اور اس کی سوئی آخری دن تک ایک بات پر اٹکی رہی۔ کہتا تھا کہ جب صبح تمہارے گاؤں کا کوئی شخص دفتر، کاروبار، مزدوری یا کھیتی باڑی کے لیے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے شیڈول میں مجھ سے ملاقات کا وقت شامل نہیں ہوتا، پھر وہ کیسے میرے لیے گھنٹہ، دو گھنٹے نکال لیتا ہے اور اس کا کام یا ملازمت کیسے چلتے ہیں؟ ہم نے متعدد بار اسے نرمی سے سمجھایا کہ دنیا کے کام نہیں رکتے جانو جرمن! تم اپنے دماغ پر زیادہ بوجھ مت ڈالو۔

گورے کے اس مطالعاتی دورے کے دوران گاؤں میں ایک شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ میزبانوں نے ازراہِ مروت گورے کو بھی دعوت دی۔ دعوتی کارڈ پر تقریب کا وقت دن ایک بجے لکھا تھا۔ وہ خوشی خوشی وقت سے پہلے ہی تیار ہو گیا مگر ہم لوگوں کی تیاری کے لچھن دیکھ کر پریشان سا ہو گیا۔ نادان گورا بار بار گھڑی دیکھتا اور اضطراری کیفیت میں ٹہلتے ہوئے ایک کھوکھلا سا جملہ دہراتا جاتا تھا ’’ہمیں وقت پر پہنچنا چاہیے، ہم لیٹ ہو جائیں گے۔‘‘

گورے کی بے جا ضد کی بنا پر ہم زندگی میں پہلی دفعہ کسی تقریب میں وقت پر پہنچ گئے۔ بارات تین گھنٹے لیٹ آئی۔ اس دوران گورا ہونقوں کی طرح کبھی ہمیں، کبھی میزبانوں اور کبھی خالی پنڈال کو دیکھتا رہا، مگر بے چارا شدت غم سے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے قاصر رہا۔ جب کھانا کھلا تو لوگوں کی دھکم پیل اور چھینا چھپٹی دیکھ کر گورا خوفزدہ ہو گیا۔ کھانے کی اس ’’جنگ‘‘ کے دوران کسی کم بخت کو دھکا لگا اور قورمے کی ایک پوری پلیٹ گورے کے کپڑوں پر خوبصورت نقش و نگار بنا گئی۔ یار لوگوں نے اس پر خوب قہقے لگا کر اس کی حوصلہ افزائی کی۔

ایک دن اپنے کندھے سے بوسیدہ سا بیگ لٹکائے ایک گشتی حکیم وارد ہو گیا اور بغیر گورے کی درخواست کے زبردستی اس کی نبض چیک کر ڈالی۔ نیم حکیم کافی دیر تک اس کے سرخ و سپید ہاتھ سے چپکا رہا اور پھر متفکر انداز میں لال سرخ گالوں والے ہٹے کٹے گورے کو جگر، معدہ و مثانے کی گرمی کے علاوہ دیگر ایسے ایسے پوشیدہ امراض کی نوید سنائی کہ جن سے جرمنی کے ڈاکٹر بھی آگاہ نہ ہوں گے۔ نیم حکیم نے بیگ سے دواؤں کی چار پانچ چھوٹی چھوٹی شیشیاں نکال کر گورے کو دیں اور ہدایت کی کہ اسے باقاعدگی سے علاج کرانا ہوگا۔ حکیم نے اسے اپنا وزیٹنگ کارڈ بھی دیا اور بتایا کہ ملتان میں میرا بہت بڑا دواخانہ ہے، جہاں ان دواؤں کی قیمت بہت زیادہ ہے، البتہ اس وقت میں کمپنی کی مشہوری کی خاطر انہیں دس، دس روپے میں فروخت کر رہا ہوں۔

جاتے جاتے حکیم صاحب نے گورے کو ہدایت کی کہ وہ دو ہفتے بعد ضرور اس کے دواخانے پر آئے تاکہ علاج جاری رکھا جا سکے اور گورے کی مردانہ کمزوری کو رفع کر کے اسے ممکنہ شرمندگی سے بچایا جا سکے۔ حکیم صاحب نے اُسے یہ بھی ہدایت کی کہ آنے سے قبل فون پر وقت لے لے، کیونکہ دواخانے پر بہت رش ہوتا ہے۔ گورا یہ ساری کارروائی حیرت سے دیکھتا رہا اور حکیم صاحب قبلہ کے جانے کے بعد اس نے ان کی حکمت پر کافی ہرزہ سرائی کی اور کئی غیر ضروری سوالات اٹھائے۔ مثلاً پوچھتا تھا کہ اگر اس کا اتنا بڑا مطب ہے تو پھر یہ بسوں میں دھکے کھا کر اور قریہ قریہ جوتیاں چٹخا کر کیوں کمپنی کی مشہوری کر رہا ہے؟

گورے کے قیام کے دوران ہمارے قومی وقار کو کئی اور بھی دھچکے لگے۔ ایک دن وہ بیٹھک پر اکیلا بیٹھا تھا کہ کسی نامعلوم ٹھگ کا وہاں سے گزر ہوا۔ گورے کو اکیلا دیکھ کر ٹھگ کی رگِ فراڈ پھڑک اٹھی اور کمینے نے اسے رقم ڈبل کر کے دینے کی پیش کش کر دی۔ اس مقامی ڈبل شاہ کی لچھے دار بکواس کے باوجود گورے کا دماغ اس کے جادو کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوا، مگر بیچارہ تجسس اور ’’شوق مطالعہ‘‘ کے ہاتھوں مارا گیا۔ ٹھگ ملکی وقار کو خاک میں ملاتے ہوئے اسے دس ہزار روپے کا ٹیکہ لگا گیا۔ گورے نے پولیس سٹیشن جانے کی بڑی ضد کی مگر ہم نے دانستہ گریز کیا، کیونکہ ملکی وقاراور وقارخان ایک اور دھچکے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔

ہمارے معاشرے کا حسب توفیق مطالعہ کر چکنے کے بعد جب گورا اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تو جاتے جاتے اس نے پھر اپنا زنگ آلود سوال دہرایا کہ میں حیران ہوں، تمہارا ملک چل کیسے رہا ہے؟ ہم نے اس کے نامعقول سوال کا کوئی جواب نہ دیا مگر دل میں کہا ’’یہاں سب چلتا ہے جانو جرمن! ٹھگی چلتی ہے، دونمبری چلتی ہے، ملاوٹ چلتی ہے، جھوٹ چلتا ہے، کمیشن چلتا ہے، کِک بیکس چلتے ہیں، چکر چلتے ہیں، آمریت چلتی ہے، دہشت گردی چلتی ہے، دھرنے چلتے ہیں، نان ایشوز چلتے ہیں، دھاندلی چلتی ہے، بجلی، گیس، پٹرول، آٹا اور چینی کے بحران چلتے ہیں اور ایسے ہی بے شمار پہیوں پر یہ ملک چلتا ہے۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں