لاہور کی وہ مساجد جو ہمارا ورثہ ہیں

تحریر و تصاویر: فاروق سومرو


لاہور اب بھی اپنے سیاحتی روپ کو برقرار رکھے ہوئے ہے، مغل اور برطانوی ورثے سے سجے اس شہر کے نظارے ایک فوٹو گرافر کے لیے جہان حیرت ثابت ہوتے ہیں۔

لوگ گلی کوچوں کی فوٹوگرافی کے حوالے سے زیادہ محتاط نہیں ہوتے اور عام بات چیت کے ذریعے معلومات میں اضافے کو پسند کرتے ہیں۔

تاہم ان میں سمتوں کے حوالے سے فہم پایا جاتا ہے جس سے مجھے لاہور میں کچھ مشکل کا سامنا ہوا۔

لاہوریوں میں مدد کرنے کا قابل تعریف جذبہ پایا جاتا ہے بلکہ لگ بھگ یہاں تو ہر ایک ہی بوائے اسکاﺅٹ کی طرح ہوتا ہے چاہے آپ کسی مدد کے خواہشمند نہ بھی ہو تو بھی وہ ہر اس ممکن طریقے سے مدد کی پیشکش کریں گے جو ممکن ہو۔

میرے معاملے میں سمتوں کا تعین مشکل بنا ہوا تھا اور راستوں کی تلاش میری الجھن میں اضافے کا ہی باعث بنی، کچھ جدوجہد کے بعد میں نے مدد کے لیے اپنے ایک لاہور دوست سے رابطہ کیا۔

میں نے پوچھا " وزیر خان کہاں ہے"۔

اس کا جواب تھا " وہ لاہور میں ہے" اور اس تازہ انکشاف نے یقیناً میری کوئی مدد نہیں کی۔

پھر میں نے پوچھا " اور مریم زمانی؟"

اس کا جواب تھا " مریم کون؟ کیا کوئی ایسی شخصیت ہے جس سے میں واقف ہوں؟"

پھر میں نے گلیوں میں لوگوں سے رجوع کیا اور کچھ دیر بھٹکنے کے بعد میں دونوں تاریخی مقامات تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔

مریم زمانی مسجد

مریم زمانی مسجد لاہور میں قدیم ترین مغلیہ مساجد میں سے ایک ہے اور اس کا نام اکبر کی بیوی من متی پر رکھا گیا تھا، جو ایک راجپوت تھی جنھیں شادی کے وقت مریم زمانی کا خطاب دیا گیا تھا۔

یہ مسجد 1611 میں قلعہ لاہور کے مستی گیٹ کے سامنے تعمیر کیا گیا تھا۔

تاہم اگر آپ اس کو تلاش کرنا چاہتے ہیں تو قلعے کے داخلی دروازے یا پارکنگ کے قریب نہ جائیں گے بلکہ مخالف سمت میں جاکر مسجد کی بجائے مستی گیٹ کے بارے میں لوگوں سے پوچھیں۔

اپنی گاڑی دروازے کے قریب پارک کریں اور پھر آپ گاڑیوں کی مرمت کی دکانوں اور گھروں کے درمیان واقع اس مسجد کو تلاش کرسکیں گے جس کے احاطے کے ارگرد مختلف چیزیں تعمیر ہوچکی ہیں۔

یہ مسجد بادشاہی مسجد سے کافی ملتی جلتی ہے جس کی دیکھ بھال بہت اچھی طرح کی جارہی ہے، تاہم مریم زمانی مسجد اس کے مقابلے میں چھوٹی ہے مگر اس میں مغل طرز تعمیر کی تمام تر خصوصیات موجود ہیں جو اسے ہماری ثقافت کا دائمی حصہ بناتی ہے۔

میں سڑک پر کافی دیر سے تھے اور اس وقت مسجد میں پہنچے جب لوگ عصر کی نماز ادا کررہے تھے۔

ہم بے صبری سے مسجد کے ایک دروازے کے قریب انتظار کرتے رہے اور میں نے ایک شخص سے جو مسجد کے ارگرد واقع کوارٹرز کے رہائشیوں میں سے ایک لگ رہا تھا، پوچھا کہ کیا خواتین بھی مسجد میں جاسکتی ہیں۔

اس نے ہمیں کھلے دل سے اجازت دے دی اور ہم اندر داخل ہوئے، درمیان میں وضو کے لیے ایک تالاب تھا جس کے اوپر ایک مستطیل شامیانہ تھا جو نظر آرہا تھا کہ بعد میں تعمیر ہوا ہے۔ مسجد کے وسط میں ایک فوارہ ہوتا تھا جو اب ہٹایا جاچکا ہے۔

ہم مسجد کی مرکزی عمارت یعنی نماز گاہ میں داخل ہوئے جہاں کی چھت اور محرابیں رنگارنگ پھولوں کے نقوش اور خطاطی سے مزئین تھیں۔

وہاں تین گنبد تھے جن میں سے درمیان میں موجود گنبد پھلوں کے پیٹرن اور اللہ کے نام سے آراستہ کیا گیا تھا۔

اس جگہ کے دونوں اطراف سیڑھیاں تھیں جو چھت کی جانب جارہی تھیں ہم بائیں جانب والی بہتر نظر آنے والی سیڑھیوں سے اوپر گئے اور چھت سے نظر آنے والا نظارہ سانسیں روک دینے والا تھا۔

ایک جانب ہم وضو کے تالاب اور ارگرد واقع بازار و گھروں کو دیکھ سکتے تھے جن کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ مسجد کے احاطے پر قبضے کرکے تعمیر ہوئے ہیں، یہ احاطہ بھی ملحقہ سڑک سے کچھ نیچے واقع ہے۔

اس مسجد کو رنجیت سنگھ کے عہد میں گن پاﺅڈر فیکٹری میں تبدیل کردیا گیا تھا اور اس کی بطور مسجد حیثیت دوبارہ 1850 میں بحال ہوگئی تھی تاہم اب بھی اسے بارود خانہ والی مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔

وزیر خان مسجد

وزیر خان مسجد کو تلاش کرنا مریم زمانی کے مقابلے میں آسان تھا مگر دہلی دروازے تک جانے والی شاہراہ لاہور کی مصروف ترین سڑکوں میں ایک ہے۔

اس سڑک کے دونوں اطراد دکانیں ہیں اور جگہ جگہ تجاوازت نے گاڑیوں کے آگے بڑھنے کے لیے بہت کم جگہ چھوڑی ہے، ہم نے اپنی گاڑی دہلی دروازے سے پہلے ہی چھوڑی اور پیدل ہی مسجد کی جانب چل پڑے۔

اس وقت لاہور میں بارش ہورہی تھی اور سورج مغرب میں ڈوبتے ہوئے موسم کو سرد کررہا تھا، اس دوران ہم لوگوں، موٹرسائیکلوں اور رکشوں کے سمندر میں اپنے لیے جگہ بنانے کی کوشش کررہے تھے۔

ہم مغرب کی نماز سے کچھ پہلے مسجد میں پہنچ گئے۔

وزیر خان مسجد 1634-1641 میں تعمیر ہوئی تھی اور اسے مغل طرز تعمیر کا شاہکار مانا جاتا ہے اور یہ اب بھی لاہور شہر کے اہم ترین تاریخ ساز مقامات میں سے ایک ہے۔

شہر کے دل میں تعمیر ہونے والی اس مسجد کا نام حکیم شیخ علم الدین انصاری سے منسوب کیا گیا تھا جو کہ ماہر طب اور شاہ جہاں کے قابل اعتماد ساتھی تھے۔

انہیں شاہ جہاں نے بعد میں لاہو رکا گورنر مقرر کرتے ہوئے وزیر خان کا خطاب عطا کیا۔ انہوں نے متعدد سرائے، حمام، مساجد اور دیگر یادگاریں تعمیر کرائیں تاہم وزیر خان مسجد ان کے لاہور میں دور حکمرانی کی سب سے بڑی نشانی کے طور پر موجود ہے۔

اس مسجد کو قلعہ لاہور کے قریب بادشاہی مسجد کی تعمیر سے پہلے تک بادشاہ اور بااثر افراد استعمال کیا کرتے تھے۔

ہم مرکزی دروازے سے مسجد میں داخل ہوئے اور اپنے جوتے نگران کے حوالے کردیئے۔ ہم مرکزی احاطے میں داخل ہوئے اور وضو کے مرکزی تالاب سے وضو کیا۔

اس تالاب سے کچھ آگے سید محمد اسحاق (جنھیں عرف عام میران بادشاہ کے نام سے جانا جاتا ہے) کا مزار واقع ہے، یہ وہ صوفی بزرگ ہیں جو تیرہویں صدی میں اسلام کی تبلیغ کے لیے لاہور آئے تھے۔ ان کا مزار مسجد سے پہلے تعمیر ہوا تھا اور مسجد کی تعمیر کے دوران اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی۔

دائیں اور بائیں پھیلی ہوئی راہداریاں ہیں جو ممکنہ طور پر مسجد کے عملے کی رہائشگاہ کے لیے استعمال ہوتی ہوں گی۔

میں نمازگاہ میں داخل ہوا اور چار میناروں میں سے ایک کے اوپر پہنچ گیا جو کہ تعمیر کے وقت اس مسجد کے خصوصی فیچرز میں سے ایک تھا۔

بلندی سے کشمیر بازار اور اس سے پیچھے کا نظارہ سانسیں روک دینے والا تھا، میں وہاں خاموشی سے بیٹھ کر موذن کی جانب سے دی جانے والی اذان سننے لگا۔

کشمیر بازار میں بھرپور گہماگہمی تھی اور لوگوں و گاڑیوں کی نقل و حرکت میرے کیمرے کے سنسر میں حرکت کی ایک لکیر چھوڑ گئی، میں وہاں سے لوگوں کو مسجد کی جانب آتے دیکھ سکتا تھا۔

پھر میں نیچے آیا اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کی، کچھ لوگ نماز کے بعد وہاں ہی رک گئے اور انہوں نے تصاویر لینے پر کوئی اعتراض یا برا نہیں منایا۔ نمازگاہ کی چھت نقش کاری اور پھولوں کے بے مثال پیٹرن سے سجی ہوئی تھی جو فوٹوگرافرز اور تاریخ کے دیوانوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔

جب میں باہر نکلا تو موسم سرد اور رات کی تاریکی چھاچکی تھی، مسجد میں موجود چند لوگ باہری دروازے کا رخ کررہے تھے۔ میں نے اپنے جوتے نگران سے واپس لیے اور اس سے پوچھا داخلی راہداری کے اوپر کیا ہے۔

اس نے مجھے بتایا کہ وہاں چار کمرے ہیں جو متعدد مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس نے میری آنکھوں میں اشتیاق کا نوٹس لیا مگر کہا کہ میں وہاں کسی اور وقت آﺅں۔