حکومتِ بلوچستان نے اپنے ایک حالیہ حکم نامے میں امتحانات کے دوران طلباء کے نقل کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ پابندی کا لفظ سن کر اگر آپ کے ذہن میں یہ خیال آ رہا ہے کہ شاید اس سے قبل طلباء کو نقل کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی تو آپ کا خیال بالکل درست ہے۔

باقی کے پاکستان کی طرح بلوچستان کے بارے میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ یہاں نہ صرف طلباء امتحانات میں نقل کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں، بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں کی انتظامیہ اور اساتذہ بھی ان کے اس حق کو بھرپور طریقے سے تسلیم کرتی ہے۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے لہٰذا اس عمل کو معاشرے میں مکمل قبولیت کا درجہ مل چکا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ میرے جیسے تمام "تعلیم یافتہ" افراد نے کسی نہ کسی مرحلے پر اپنے اس حق کا نہ صرف بھرپور استعمال کیا ہے بلکہ وہ اس کا اعتراف کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔

پڑھیے: سی ایس ایس کا فرسودہ امتحانی نظام

ایک عمومی جائزے کے مطابق طلباء میں نقل کرنے کا سلسلہ عموماً آٹھویں جماعت سے شروع ہوتا ہے جب انہیں پہلی مرتبہ بورڈ کے امتحان سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس مرحلے سے قبل چونکہ نتائج کی تشکیل کا کام اسکول انتظامیہ اور اساتذہ کے اختیار میں ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنے اسکول کی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ اچھے نتائج ترتیب دینے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ بورڈ کے امتحانات میں چونکہ یہ اختیارات دوسرے لوگوں کو منتقل ہو جاتے ہیں اس لیے اپنی ناک بچانے اور اسکول کی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے اسکول انتظامیہ کے پاس نقل کی حوصلہ افزائی کےعلاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچتا۔

وجہ کچھ بھی ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ بلوچستان میں تعلیم کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ نقل کی یہی لعنت ہے۔ یقیناً اس میں بہت بڑا قصور نظام تعلیم اور محکمہ تعلیم کے ذمہ داران کا بھی ہے جنہوں نے تعلیمی اداروں کو علم حاصل کرنے کے بجائے محض ڈگری کے حصول کا ذریعہ بنا دیا ہے، جہاں طلباء زندگی کے کچھ سال گزار کر اور پڑھ لکھ کر سند تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن علم حاصل نہیں کر پاتے۔ دوسری طرف صوبے کے حکمرانوں نے بھی کبھی اس مسئلے پر کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے جس کے باعث نقل کا یہ ناسور اب اتنا عام ہوچکا ہے کہ طلباء تعلیم پر وقت ضائع کرنے کے بجائے نقل کرنے کی نت نئی ترکیبیں نکالنے کو ترجیح دینے لگے ہیں اور امتحان دینا ایک آرٹ بن چکا ہے۔

پچھلے دنوں میرے ایک پروفیسر دوست نے ایک واقعہ سنایا کہ 1992 میں جب وہ کالج کی لیکچرار شپ کے لیے تحریری امتحان دے رہے تھے تو کئی امیدوار یہ کہہ کر اپنی نشستوں سے اٹھ گئے کہ پیپر میں آنے والے سارے سوال آؤٹ آف کورس ہیں، حالانکہ میرے دوست کے بقول پرچے میں جس نوعیت کے سوالات پوچھے گئے تھے وہ انٹرمیڈیٹ لیول کے تھے۔

مزید پڑھیے: سی ایس ایس میں بھی کاپی پیسٹ؟

اس واقعے سے مجھے یاد آیا کہ "آؤٹ آف کورس" کی یہ احتجاجی اصطلاح امتحانات کے دنوں میں کثرت سے استعمال ہوتی تھی، بالخصوص اس وقت جب سوال نامہ (question paper) پڑھنے کے بعد طلباء کو اندازہ ہو جاتا کہ وہ جو "کارتوس" جیبوں اور جرابوں میں بھر کر لائے ہیں، ان میں مذکورہ سوالوں کے جواب موجود ہی نہیں۔ تب کافی کھسر پھسر اور باہمی مشورے کے بعد طلباء اپنی نشستوں سے کھڑے ہو جاتے اور مل کر اونچی آواز میں آؤٹ آف کورس کی گردان کرنے لگتے۔

نگران بھی چونکہ طلباء کے اس ہتھکنڈے سے واقف ہوا کرتے، اس لیے وہ بھی آپس میں مختصر مشورے کے بعد طلباء کو اس بات کی مکمل اجازت دے دیتے کہ وہ چاہیں تو چپراسی کے ذریعے باہر سے امداد منگوا سکتے ہیں، یا پھر کتابوں میں سے دیکھ سکتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے باہر موجود "ریسکیو ٹیموں" میں ایک کھلبلی مچ جاتی اور فوٹو اسٹیٹ کی دکانوں کے باہر امدادی رضا کاروں کی لائن لگ جاتی۔ نگران کے پاس جمع کروائی گئی کتابیں اور گائیڈ بکس واپس طلبا کے ہاتھوں تک پہنچ جاتیں اور پورے پورے چیپٹر پھاڑ کر نکال لیے جاتے، جس میں سے پوری کلاس حسبِ توفیق فائدہ اٹھاتی۔ اور اسی دوران نگران بچوں کو تاکید کرتے نظر آتے کہ بیٹا نقل کریں لیکن خاموشی کے ساتھ۔

بلوچستان میں امتحانات کے دوران نقل کا استعمال جس طرح معمول بن گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے سال میٹرک کے امتحانات میں اسلامیات کے پیپر کے دوران ایک امتحانی مرکز میں نگران کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ بے شک خاموشی سے نقل کریں لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ مقدس اوراق زمین پر نہ گرنے پائیں کیونکہ اس طرح ان کی بے حرمتی ہوتی ہے۔

اس تمام تر صورتحال کے باوجود اچھی بات یہ ہے کہ اب عام لوگوں کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ انہیں ہر صورت معاشرے کو اس ناسور سے نجات دلانی ہے، اس لیے صوبے کے مختلف حصوں میں قائم بعض اسکولوں کی انتظامیہ نے، جن میں زیادہ تر پرائیویٹ اسکول شامل ہیں، تہیہ کر لیا ہے کہ وہ اپنی حد تک نقل کے خلاف جہاد کریں گے تاکہ مستقبل میں ایک بہتر اور حقیقی تعلیم یافتہ طبقہ وجود میں آ سکے۔

یاد رہے کہ پچھلے سال بھی کوئٹہ کے بعض اسکولوں کی انتظامیہ نے میٹرک کے امتحانات سے قبل بورڈ سے اس بات کی درخواست کی تھی کہ ان کے طلباء کے لیے ایسا امتحانی مرکز مخصوص کیا جائے جہاں نقل کرنے پر مکمل پابندی ہو۔ کچھ اسی طرح کی خبریں بلوچستان کے شہر پنجگور سے بھی موصول ہوئی تھیں جہاں کے متعدد سکولوں نے ازخود اقدامات کرتے ہوئے نقل پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔

مزید پڑھیے: بلوچستان حکومت کی امتحانات میں نقل کیخلاف آگاہی واک

ضرورت اس بات کی ہے کہ طلباء کے والدین، سیاسی پارٹیاں اور سول سوسائٹی بھی اس بات کا پکا عہد کر لیں کہ وہ نقل کے خاتمے کے لیے حکومت کا بھر پور ساتھ دیں گے، کیونکہ اگر اب بھی ہم نے اپنی ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش نہیں کی، تو یہ ہماری نئی نسل کے ساتھ بہت بڑی خیانت ہوگی۔ یقیناً ہم یہ نہیں چاہیں گے کہ ہماری نالائقیاں ہماری نئی نسل میں منتقل ہوں۔ اس صورت حال میں وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر مالک کا یہ عہد کہ وہ صوبے سے نقل کا مکمل خاتمہ کریں گے، ہر لحاظ سے خوش آئند اور قابلِ تعریف اقدام ہے۔

بس انہیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ ان کا یہ عہد صرف دعوے کی حد تک محدود نہ رہے۔ انہیں صوبے میں نظامِ تعلیم کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا تاکہ درسگاہوں سے تعلیم یافتہ لوگ نکلیں اور آئندہ کسی ممتحن کو طلباء سے یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑے کہ: نقل کریں لیکن خاموشی کے ساتھ

تبصرے (5) بند ہیں

smaz Feb 19, 2015 04:48pm
میں بھی نقال رہ چکا ہوں . کپڑے پہنے کے فواید اسی دوران پتا چلا . خدا کسی کو ننگا نہ کرے .
Ahsan Latif Feb 20, 2015 02:15pm
Yeh article sab ke liye aik ayina hai. kyun ke sab students ne yeh tajarba zaroor kiya hoga.
شان علی Feb 20, 2015 09:33pm
صرف بلوچستان ہی نہیں خیبر پختونخواہ کے بیشتر حصوں اور تقریباً تمام دیہی علاقوں مین نقل کے حق کو بقریق احسن پورا کیا جاتا ہے۔ نقل کے دوران نگران عملہ ٹی بریک اور ناؤ نوش میں مصروف ہوتا ہے جبکہ سکول ٹیچر اور رضاکار طلباء کیلئے مدد میں پیش پیش۔ اس تعلیمی نظام کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ali Feb 21, 2015 12:41am
I thank to the auther to project bitter realities of our society but i suggest in such an outdated system of education we cannot expect betterment
محمد یوسف Feb 22, 2015 04:43pm
بڑے ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم پنجابیوں کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے اور ایسی کوئی سہولت ہمیں دستاب نہیں تھی اور شاید اب بھی نہیں ہے۔ نقل کی سہولت نا ملنے کی وجہ سے ہم میٹرک کے امتحان میں حساب میں صرف 27 رعیاتی نمبروں سے پاس ہوئے، شرمندگی کی انتیہا تھی کہ ہم نے دوبارہ امتحان دیا اور لاہور بورڈ کی دریا دلی کو لات مارتے ہوئے 57 نمبر لے کر پاس ہوگئے۔ کوفت تو بہت ہوئی مگر اک بات سمجھ میں آ گئی کہ حساب کا مضمون اتنا بھی مشکل نہیں جتنا کہ ہم سمجھتے تھے۔ مگر کیا کریں، ھڈ ہرامی اور پاکیستانی نوجوانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جہاں تھوڑا دماغ استعمال ہونا ہو، وہاں ہم کہتے ہیں۔۔۔ چھڈ یار ایہ سمجھ نہیں آنا۔۔ [چھوڑو یار یہ سمجھ میں نہیں آِے گا] پھر یہی کچھ گریجوایشن کرتے ہوئے ہوا اور ہم اکنامکس جیسے سوکھے اور پھکڑ سے مضمون میں فیل ہی ہو گئے حالانکہ ہم نے اپنے اخراجات کی کٹوتی کر کے پورے 500 ممتحن کو ادا کیے۔۔ مگرجب تک سوالوں کے جواب ہمارے پاس پہنچتے، ممتحن صاحب خود تیزی سے چلتے چلتے ہمارے پاس سے گزرتے ہوئے کہ رہے تھے۔۔ چھاپا، چھاپا۔۔ چھاپا۔۔۔ چھاپا۔۔۔ پہے تو سمجھ میں نہیں آیا۔۔ پھر غور کرنے پر پتا چلا کہ ہوا کیا ہے۔۔ ہم چکرا گئے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا مگر جوابی کاپی پر صاف لکھا تھا۔۔ فیل ۔ یہ بات ابا جان سے چھپائی تاکہ مار نہ پڑے اور ماہانا خرچہ ملتا رہے۔ مرتے کیا نا کرتے، دوبارہ امتحان دیا، اور اس دفعہ خوب پڑھائی کی۔۔۔۔ ہم اپنی جماعت میں سب سے زیادہ نمبر لے کر پاس ہوئے، اور اپنی خوبصورت سی میڈم [شاید عمر میں ہم سے بھی چھوٹی تھیں] کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ پھر جب ہم دوبئ