'افغانستان طالبان کے ساتھ اقتدار شیئر کرے'

اپ ڈیٹ 26 فروری 2015
سابق صدر پرویز مشرف— اے ایف پی فائل فوٹو
سابق صدر پرویز مشرف— اے ایف پی فائل فوٹو

نیویارک : سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ اگر افغانستان ملک میں امن چاہتا ہے تو کابل کو لازمی طور پر اپنا اقتدار طالبان کے ساتھ شیئر اور ہندوستانی اثررسوخ کو بلاک کرنا ہوگا۔

وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو کے دوران سابق صدر کا کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی کی ستمبر میں افتتاحی خطاب سے حکومت اور طالبان و دیگر عسکریت پسند گروپس کے درمیان مصالحت کا ایک نیا موقع سامنے آیا تھا۔

انہوں نے کہا " اشرف غنی ایک متوازن شخص ہیں، میرے خیال میں وہ ایک بڑی امید ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کو دور رہ کر پراکسی وار کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہئے۔

ریٹائرڈ جنرل کا کہنا تھا کہ ہندوستان بلوچ علیحدگی پسندوں کو افغانستان کے اندر اسلحہ، تربیت اور آلات فراہم کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادی مسلسل پاکستانی تحفظات کا احساس کرنے میں ناکام رہے ہیں جس نے اسلام آباد کو افغانستان کے اندر اس کے مفادات کا خیال رکھنے والے عسکریت پسند گروپس پر انحصار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

امریکی روزنامے کے بقول دفاعی اور انٹیلی جنس حکام سے قریبی تعلقات کو دیکھتے ہوئے پرویز مشرف کے ریمارکس افغان امن عمل پر آفیشل پاکستانی سوچ کی جھلک پیش کرتے ہیں۔

پرویز مشرف نے انٹرویو کے دوران یہ اعتراف بھی کیا کہ پاکستان اور ہندوستان افغان سرزمین پر طویل عرصے سے جاری پراکسی جنگ میں مصروف ہیں جس نے تنازع کو مزید ہوا دی ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا اور اسلام آباد کا طالبان اور اس کے اتھادی عسکریت پسند گروپس کو پھلنے پھولنے میں مدد دینے کا کردار وہاں موجود روایتی حریف ہندوستنا کے لیے جائز تھا۔

ان کا کہنا تھا " وہاں پاکستان کے دشمن ہیں جن کا مقابلہ کرنا ہے، یقیناً اگر وہاں میرا کوئی دشمن ہوگا تو میں اس سے مقابلے کے لیے کسی اور کو استعمال کروں گا"۔

ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا " ہمیں صحرا سے آنے والی آوازوں پر ردعمل دینے کی ضرورت نہیں، اس طرح کی آوازیں بس خبروں میں جگہ حاصل کرنے کے لیے کوشش کررہی ہوتی ہیں"۔

پرویز مشرف کا انٹرویو کے دوران کہنا تھا " دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا ہوسکتا کہ ہم ملا عمر کے چہرے کو پسند نہ کریں مگر زندگی ایسی ہی ہوتی ہے اور ایسا ہی افغانستان ہے"۔

انہوں نے کہا کہ یہ گروپس افغانستان میں ہندوستانی اثررسوخ کی روک تھام کا ذریعہ تھے اور سابق صدر کا اصرار تھا کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش " جانتے ہیں کہ میں واشنگٹن کے ساتھ ڈبل گیم نہیں کھیل رہا"۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Sayed Feb 26, 2015 11:32am
are you sure? if this is the soluation to bring peace in Afghanistan then Pak must share power with TTP
وسيم Feb 26, 2015 12:56pm
اگر واقعی بھارت ایسا کررھاھے۔۔۔ تو تم بھی ایسا کرو ۔۔۔۔ کشمیری اور خالصتان کو اسلحہ اور تربیت دو۔
MALIK Feb 27, 2015 01:50am
he is a genius and his every word has meaning. We wish we could use him for the development of Pakistan. At least we should not comment him like "Mukhalfat Barai Mukhlfat"