'حکومت جلد بلوچستان پر سے کنٹرول کھو دے گی'

اپ ڈیٹ 27 فروری 2015
ریاست قلات کے پرنس اور بلوچ رابطہ اتفاق تحریک کے سربراہ پرنس محی الدین بلوچ—۔فائل فوٹو/ پی پی آئی
ریاست قلات کے پرنس اور بلوچ رابطہ اتفاق تحریک کے سربراہ پرنس محی الدین بلوچ—۔فائل فوٹو/ پی پی آئی

کراچی: بلوچستان کی غیر فعال ریاست قلات کے پرنس اور بلوچ رابطہ اتفاق تحریک کے سربراہ پرنس محی الدین بلوچ نے خبر دار کیا ہے کہ اگر حکومت 2015 کے اختتام تک بلوچ عوام کے مسائل ان کی امنگوں کے مطابق حل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو وہ تمام صورتحال پر سے اپنا کنٹرول کھو دے گی۔

کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں اپنے چھوٹے بھائی پرنس یحییٰ بلوچ آف قلات کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران پرنس محی الدین کا کہنا تھا کہ ہم اب تک بلوچ عوام کو دباتے آئے ہیں لیکن 31 دسمبر 2015 کے بعد صورتحال قابو سے باہر ہوجائے گی اور ہمارے حکمران صورتحال کو تبدیل کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سال کے آخر تک ہم بلوچ عوام کو اس بات کی اجازت دینے پر مجبور ہوجائیں گے کہ وہ اپنی پسند کا راستہ اختیار کرلیں۔

پرنس محی الدین نے کہا کہ اب تک ہمارے 5 ہزار بچے قتل کیے جا چکے ہیں جبکہ 10 ہزار کے قریب بلوچوں کو اغواء کیا جا چکا ہے، لیکن کسی کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ بلوچ عوام کی مزاحمت کو کچل دیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ بلوچ فطرتاً سست، ضدی اور جگھڑالو ہیں لیکن جب معاملہ جنگ کا ہو تو پھر کوئی انھیں شکست نہیں دے سکتا۔

پرنس محی الدین کا کہنا تھا کہ پوری دنیا بلوچستان کے معاملے میں دلچسپی لے رہی تھی اورصوبے کی اسٹریٹیجک پوزیشن کی بناء پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ ہر کوئی بلوچستان کے وسائل کا بلوچ عوام کی قیمت پر استحصال کرنا چاہتا تھا لیکن بلوچ عوام ساری زندگی مثبت اثرات کے ساتھ اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہے۔

فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں وفاقی وزیر رہنے والے پرنس محی الدین نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ان کے والد خان آف قلات نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر ریاست قلات کا پاکستان کے ساتھ الحاق اس وجہ سے کیا تھا کہ ایک بڑی اسلامی ریاست قائم کی جارہی ہے، لیکن اپنے قیام کے بعد قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو فراموش کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگرچہ ہم ایک چھوٹی سی ریاست ہیں اور ہمارے پاس جو کچھ تھا ہم اس سے مطمئن تھے، ہم صرف اسلام پر ہی نہیں بلکہ بلوچ روایات کے مطابق جمہوریت پر بھی عمل پیرا تھے، لیکن پاکستان میں شامل ہونے کے بعد ہم نے سب کچھ کھو دیا اور نئی ریاست کی جانب سے ہمیں مستقل نظر انداز کیا گیا'۔

انھوں نے یاد دلایا کہ 1972 میں بلوچستان کی جمہوری حکومت کو برطرف کیا گیا کیونکہ ہر ایک کی نظر صوبے کے وسائل پر تھی اور ہر حکمران بلوچستان کی اسٹریٹیجک پوزیشن کا استحصال کرنا چاہتا تھا۔

پرنس محی الدین نے کہا کہ اکثر اوقات بلوچ عوام کو کسی بھی ثبوت کے بغیر غدار اور غیر ملکی ایجنٹ کے القابات سے نوازا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم نے ہمیشہ امن کے بارے میں بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ 1976 سے 1999 تک صوبے میں صورتحال نسبتاً پرامن تھی، لیکن اس کے بعد یہ تنزلی کا شکار ہوگئی۔ 'اب ہم طاقت کا استعمال اور ویران جگہوں پر پھینکی گئی مسخ شدہ لاشیں دیکھتے ہیں، حتیٰ کہ مجھے بھی قتل کیا جاسکتا ہے لیکن میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بلوچ عوام حالت جنگ میں نہیں ہیں بلکہ احتجاج کر رہے ہیں اور وہ جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھے ہوئے ہیں وہ بھی لڑائی میں مصروف نہیں ہیں'۔

پرنس محی الدین نے مزید کہا کہ بلوچ عوام کے اس احتجاج کا مقصد صرف حکومت کی توجہ حاصل کرنا ہے، تاکہ وہ ان کی بات سنے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ کوئی ان کی بات نہیں سن رہا۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بلوچ تنظیمیں غائب ہو جائیں گی تو وہ غلطی پر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بلوچ رہنما ملک سے باہر ہیں جبکہ کچھ ملک میں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن تمام مزاحمتی گروپ بلوچ قوم کا حصہ ہیں اور ہر ایک کا اپنا حلقہ اثر ہے۔

آخر میں ان کا کہنا تھا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد لاہور اور اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ کو گہری نیند سے جگا کر اس حقیقیت کا ادراک کروانا ہے کہ بلوچ عوام موجودہ صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔

پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے اور یہاں حکمرانی کی کوئی جھلک نظر نہیں آرہی، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وردی میں ملبوس لوگ ملک کے حکمران ہیں تو کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاہ سوٹوں میں ملبوس افراد ملکی معاملات چلا رہے ہیں ۔

پرنس محی الدین نے کہا کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کو ایک حقیقی رہنما نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے پاس اصل اتھارٹی نہیں ہے، وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کا ایک چہرہ ہیں اور کسی بھی تبدیلی کی صورت میں یہ رہنما اُس ملک چلے جائیں گے جہاں ان کے اثاثے موجود ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Nadeem Feb 27, 2015 01:09pm
پوری دنیا یا انڈیا یہ سب کروا رہا ہے
Feb 27, 2015 08:09pm
In Pakistan everything is possible, you can live in London and mess up biggest city of the country or you live in the country and talk againt the country, the reason is there is no law, if there is law but no one follows it, corruption and corrupt leader are really responsible what is happening in the country, baloch people are as pakistani as other pakistani, in the country.and all of us should love pakistan.