بیچارہ استاد

27 فروری 2015
زمین پر بیٹھ کر پڑھتے بچے اور ٹوٹی کرسی پر بیٹھا استاد کیا ملک کا مستقبل روشن کر سکتے ہیں؟ — اے ایف پی/فائل
زمین پر بیٹھ کر پڑھتے بچے اور ٹوٹی کرسی پر بیٹھا استاد کیا ملک کا مستقبل روشن کر سکتے ہیں؟ — اے ایف پی/فائل

جب میری گورنمنٹ پرائمری اسکول میں پوسٹنگ ہوئی تھی تو میں بہت خوش تھا کیونکہ بہت سی جگہوں پر جاب کے لیے کوشش کرنے کے باوجود میں کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکا تھا۔ خوش اس لیے تھا کہ چلو بے روزگاری سے تو جان چھوٹی۔ لیکن میری خوشی اس وقت مایوسی میں بدل گئی جب میں نے اپنی پوسٹنگ کا ایڈریس دیکھا۔ یہ اسکول میرے شہر سے کافی دور ایک گاؤں میں تھا۔

پہلے دن اسکول پہنچا تو میری مایوسی حیرت میں بدل گئی کیونکہ جس اسکول میں مجھے بھیجا گیا تھا اس کی عمارت تو تھی لیکن خستہ حال۔ فرنیچر کے نام پر صرف ایک ٹوٹی پھوٹی کرسی تھی جس پر مجھے بیٹھ کر پڑھانا تھا۔ وائٹ بورڈ یا بلیک بورڈ نام کی کوئی چیز وہاں موجود نہیں تھی۔ چار دیواری کا دور دور تک کوئی نشان موجود نہ تھا۔ میرے لیے سب سے حیران کن بات یہ بھی تھی کہ اس سے پہلے وہ اسکول دو سال تک استاد نہ ہونے کی وجہ بند تھا اور گاؤں کے بچے سارا دن کھیل کود میں اپنا وقت برباد کر رہے تھے۔

جب گاؤں والوں سے اسکول بند ہونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ پہلے جو استاد یہاں پڑھاتے تھے ان کا گھر شہر میں تھا اور وہ آٹھ سال تک یہاں اس اسکول میں پڑھاتے رہے ہیں۔ دو سال پہلے ان کا تبادلہ ان کے گھر کے نزدیکی اسکول میں ہوگیا تھا۔ ان کے جانے کے بعد کسی استاد نے اس اسکول کی طرف آنا گوارا نہ کیا۔

پڑھیے: کمرشل تعلیم اور بے بس ریاست

جب میں نے اسکول کھولا تو سارے گاؤں والے وہاں اکٹھے ہوگئے۔ یہ گاؤں کا واحد اسکول تھا اور وہ بھی دو سال سے بند تھا جب میں نے انہیں بتایا کہ مجھے اس اسکول میں بطور استاد تعینات کیا گیا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کب سے اپیل کر رہے تھے کہ اس اسکول میں استاد بھیجا جائے، ہمارے بچوں کا مستقبل ضائع ہو رہا ہے، تو کسی نے ہماری نہ سنی۔ شکر ہے اب انہیں ہمارا خیال آ گیا۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ میں پوری ایمانداری سے پڑھاؤں گا آپ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں تو وہ سب بہت خوش ہوئے اور انہوں نے عہد کیا کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول ضرور بھیجیں گے۔

پہلے دن کوئی دس کے قریب بچے اسکول میں آئے۔ میں نے باقاعدگی سے اسکول جانا شروع کردیا۔ صبح میں جلدی بیدار ہو جاتا اور ناشتہ کرنے کے بعد اپنی موٹر سائیکل پر سوار ہو کر اسکول کی طرف روانہ ہو جاتا۔ لمبا سفر طے کرنے کے بعد میں اسکول پہنچتا۔ گو کہ لمبا سفر طے کرنے کی وجہ سے میں تھک جاتا تھا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور دل لگا کر پوری ایمانداری سے بچوں کو پڑھاتا رہا۔ آہستہ آہستہ بچوں کی تعداد بڑھنے لگی اور ایک دن ایسا آیا کہ اسکول کا کمرہ بچوں سے بھر گیا اورجگہ کم پڑ گئی۔ میں نے بچوں کو اسکول کے کمرے میں بٹھانے کے بجائے باہر بٹھانا شروع کردیا۔

جب مجھے پہلی تنخواہ ملی تو میں نے اسکول کی دیوارپر ایک بلیک بورڈ بھی لگوادیا اور ایک وائٹ بورڈ بھی خرید لیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے اپنی تنخواہ سے یہ چیزیں کیوں خریدیں۔ اس لیے کیونکہ اسکول کونسل کے فنڈ میں کوئی رقم موجود نہیں تھی۔ اور اس اسکول میں پڑھاتے ہوئے مجھے ڈھائی سال سے بھی زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ابھی تک کوئی فنڈز نہیں مل سکے ہیں۔ بارہا افسران بالا سے درخواست بھی کی گئی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ مانیٹرنگ کرنے والے بھی اس بارے میں اپنی رپورٹس بھیج چکے ہیں لیکن بے فائدہ۔

مزید پڑھیے: گوسڑو ماستر تعلیم کے لیے خطرہ

اسکول کی حالت پہلے ہی خستہ حال تھی اب مزید خراب ہوچکی ہے۔ اس دفعہ سردیوں میں بچے کھلے آسمان تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے رہے۔ بارش ہوتی ہے تو اسکول کی چھت ٹپکنے لگتی ہے۔ اسکول کی چار دیواری کے لیے بھی کئی بار کہا گیا لیکن ابھی تک اس کے لیے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ حکومت شہری اسکولوں پر تو توجہ دے رہی ہے لیکن دور دراز دیہی علاقوں کے اسکولوں کی حالت میرے اسکول جیسی ہے۔ کسی کی چار دیواری نہیں ہے تو کسی کے ہاں بچوں کے بیٹھنے کے لیے فرنیچر نہیں ہے۔

اسکول کونسل کا فنڈ جو کہ ہر سال سرکاری اسکولوں کو دیا جاتا ہے وہ بھی صرف شہری اسکولوں تک محدود ہے۔ گاؤں کے ہائی اور مڈل اسکولوں کو تو یہ فنڈ ہر سال فراہم کردیا جاتا ہے لیکن دیہی علاقوں میں واقع پرائمری اسکولوں کو یہ فنڈ بہت کم ہی فراہم کیا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس بارے میں توجہ دیں تاکہ دیہات کے بچوں کو بھی ویسی ہی سہولیات ملیں جیسی کہ شہری بچوں کو دستیاب ہیں۔

پنجاب کے دیہی علاقوں میں واقع اکثر پرائمری اسکولوں میں صرف ایک ہی استاد تعینات ہوتا ہے۔ اگر مقامی استاد نہ ہو، تو دور دراز علاقے سے تعلق رکھنے والے کسی استاد کو تعینات کر دیا جاتا ہے۔ اسکول میں ایک استاد ہو تو وہ بیچارا مزید مشکلات سے دوچار ہوجاتا ہے۔ اگر کسی مجبوری کے تحت وہ اسکول نہ جائے تو اسکول بند ہو جاتا ہے۔ سنگل اسکول ٹیچر کو چھٹی ملنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اگر کوئی بیماری یا اور کوئی مشکل پیش آجائے تو بھی اس کو چھٹی نہیں مل پاتی۔

جانیے: پاکستان میں تعلیم کی صورتحال اندازوں سے بھی زیادہ بدترین

حکومت کو چاہیے کہ اگر وہ تعلیم کو ملک میں عام کرنا چاہتی ہے تو تمام اسکولوں میں یکساں سہولیات فراہم کرے اور اساتذہ کے مسائل حل کرنے کے لیے جامع پالیسی مرتب کرے۔ پرائمری اسکولوں میں تعداد کے مطابق اساتذہ تعینات کرے اور جو اساتذہ دور دراز علاقوں میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں انہیں اپنے شہر کے نزدیک تعینات کیا جائے تاکہ وہ دلجمعی سے تعلیم کو عام کرسکیں۔

استاد تعلیمی نظام کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے، اور اگر استاد کو سہولیات فراہم نہیں کی جائیں گی، تو اس کا لازمی اثر اس کی کارکردگی پر پڑے گا۔ بغیر استاد کے تعلیم کا تصور نہیں کیا جا سکتا، اور سہولیات کے بغیر استاد کا بھی تصور نہیں کیا جانا چاہیے۔ حکام سے گذارش ہے کہ وہ شعبہ تعلیم میں نئے میگا پراجیکٹس لانچ کریں یا نہ کریں، کم از کم وہی چیزیں فراہم کر دیں جن کی منصوبہ بندی پہلے سے موجود ہے تاکہ ایک پڑھا لکھا معاشرہ تشکیل پاسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

SMAZ Feb 27, 2015 04:36pm
Respect
محمد ارشد قریشی Feb 27, 2015 08:13pm
استاد کا مقام اور اہمیت اس دور میں کم ہوتی جارہی ہے قابل تعریف تحریر ہے
Ashiq Sindhi Feb 28, 2015 11:18am
A lesson for the "Ghosroo Teachers" of Sindh, who themselves are responsible for their disrespect. سنڌ جي گوسڙو استادن لاءِ سبق، جيڪي پنهنجي ذلت جا خود ذميوار آهن.
wasim jamal Mar 02, 2015 02:27am
ap ka artical bohat achcha aur pur asar tha