اے بی ڈیویلیئرز کی درخشاں واپسی

28 فروری 2015
اے بی ڈیویلیرز —رائٹرز فوذٹو
اے بی ڈیویلیرز —رائٹرز فوذٹو

اے بی ڈیویلیئرز کے بلے کے جارحانہ اسٹروکس نے جمعے کو دنیا بھر کے کرکٹ پرستاروں اور ماہرین کو لاجواب کردیا اور ان کی گویائی کی واپسی کرس گیل کی زمبابوے کے خلاف چند روز پہلے کی جانے والی ڈبل سنچری سے موازنے کے ساتھ واپس آئی۔

کرس گیل کے ساتھ موازنہ، میرا ماننا ہے کہ یہ ان دونوں کے اسٹروکس کی بے جوڑ رینج کو دیکھتے ہوئے بے فائدہ ہے۔

اس موازنے کے دوران کے سکوت کا دورانیہ ڈیویلیئرز کی عظمت کو تسلیم کرنے کے برابر ہے جب آپ مرعوب ہوتے ہیں تو الفاظ وقت کا ضیاع بن جاتے ہیں۔

کرس گیل خود بھی اس وقت اپنے کندھے اچکانے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکے جب جنوبی افریقی کپتان ایس سی جی کے ہر حصے میں ویسٹ انڈین اٹیک کو اڑا رہے تھے، یہاں تک کہ متعدد اسٹروکس تو ایسے تھے کہ گیل بھی واقف ہے کہ وہ اسے کھیلنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

کافی عرصے سے کرکٹ حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا ڈیویلیئرز اپنے ہم عصر بلے بازوں میں سب سے بہترین ہیں۔ ان کے حریفوں میں مائیکل کلارک، ویرات کوہلی، ان کی ٹیم کے ہاشم آملا، ڈیو وارنر، ابھرتے ہوئے زبردست بیٹسمین کین ولیمسن اور اسٹیو اسمتھ کے ساتھ یقیناً زندہ دل گیل شامل ہیں۔

مگر آخری ایک مہینے کے دوران یہ مسئلہ کافی حد تک حل ہوچکا ہے، ڈیویلیئرز نے کچھ ہفتے قبل محض 31 گیندوں پر تیز ترین ون ڈے سنچری اسکور کی، اسی اننگ میں تیز ترین ففٹی کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا جبکہ جمعے کو تیز ترین 150 رنز کی اننگ نے ویسٹ انڈین باﺅلرز اور فیلڈرز کو ہانپنے پر مجبور کردیا۔

کرس گیل کے کریڈٹ پر یقیناً تیز ترین ڈبل سنچری ہے، ڈیویلیئرز نے اب تک ڈبل سنچری اسکور نہیں کی مگر یہ اس بحث سے متعلق موضوع نہیں اور نہ ہی محدود اوورز کی کرکٹ میں تباہ کن ہٹنگ زیربحث ہے۔

یہ سمجھنا ہوگا کہ آخر کیوں جنوبی افریقی بلے باز تمام مسابقت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کی کارکردگی کا تجزیہ تمام فارمیٹ میں ان کے ریکارڈ کی بنیاد پر کرنا چاہئے۔

یہ اعداد و شمار زبردست ہے مگر ان کے بلے بازی کا معیار جو انہیں آج کی کرکٹ کا سب سے ورسٹائل، تخلیقی اور لچکدار بلے باز بناتا ہے، ایسا کچھ نہیں جو ڈیویلیئرز نے نہ کیا ہو یا کم از کم لگ بھگ سب کچھ تو کرہی لیا ہے۔

ہندوستان کے خلاف ہم جانتے ہیں کہ وہ رن آﺅٹ ہوگئے تھے جو ان کی ٹیم کو بھاری پڑا۔ مخالف ٹیموں کو ڈیویلیئرز کے قابلیت کے سامنے جھکنا پڑتا ہے یا خوش قسمتی کو آواز دینا پڑتی ہے تاکہ انہیں جلد پویلین واپس بھیجا جاسکے، دوسری صورت میں وہ تو محض دیکھنے والوں جیسے کردار تک ہی محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔

ورلڈکپ کے تناظر میں ڈیویلیئرز کے 161 رنز جنوبی افریقا کو ٹائٹل کے سنجیدہ امیدوار کے طور پر سامنے لائے ہیں ۔ دیگر ٹیموں کو اس لمحے سے زیادہ خیال رکھنا ہوگا۔

ہندوستان تو آزادی سے سانس لے سکتا ہے کیونکہ اس نے پہلے ہی جنوبی افریقا پر متاثرکن کامیابی حاصل کرلی ہے مگر انتباہ یہ ہے کہ اگر یہ دونوں ٹیمیں دوبارہ مدمقابل آئیں تو بلیو شرٹس کو کچھ اضافی کر دکھانے کی ضرورت ہوگی۔

ہفتہ کو ہندوستان کا ٹاسک نسبتاً آسان ہے یعنی یو اے ای کو بڑے مارجن سے ہرانا اس کے لیے اپنے رن ریٹ کو بہتر کرنے کے لیے کافی ہوگا تاکہ پول میں اس کی ٹاپ پوزیشن متاثر نہ ہو یہاں تک کہ اگر لیگ مرحلے میں کچھ مشکلات بھی سامنے آتی ہیں تو کچھ تجربات کے امکانات موجود ہیں جنھیں دھونی کو ضرور آزمانا چاہئے۔

ویسٹ انڈیز کو یقیناً اپنا نیٹ رن ریٹ کے ساتھ اپنا مورال بھی بہتر بنانا ہوگا جو کہ جنوبی افریقا کے ہاتھوں 257 رنز کی شکست سے تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔

اس سے پاکستان کو دوبارہ ابھرنے کا ایک موقع بھی ملا ہے، تاہم اس کے لیے پروٹیز کو ہرانا موجودہ فارم کو دیکھتے ہوئے کسی بلند ترین چوٹی کو سر کرنا جیسا لگتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ مصباح اور ان کی ٹیم کو دیگر تینوں میچز میں کامیابی حاصل کرکے بہترین کی توقع کرنا ہوگی۔

ان کا مشکل ترین ٹیسٹ اتوار کو زمبابوے کے خلاف ہوگا، پاکستان کو نہ صرف اس میچ میں کامیابی حاصل کرنا ہے بلکہ اپنے کم ترین رن ریٹ کو بھی بہتر بنانا ہوگا جو کہ پول بی میں ایک فیصلہ کن عنصر ثابت ہونے والا ہے۔

زمبابوے کو شکست دینے میں ناکامی کوئی آسان امر ثابت نہیں ہوگا بلکہ اس کا ٹیم پر اس ملک کے انتہائی جذباتی پرستاروں کے ہاتھوں انتہائی سنجیدہ ردعمل مرتب ہوگا۔

جیسے چیف سلیکٹر معین خان انتباہ کرچکے ہیں کہ گھر واپسی ہمیشہ پرمسرت تجربہ ثابت نہیں ہوتا۔

تبصرے (0) بند ہیں