'پاکستان کے داخلی مسائل بین الاقوامی حالات سے منسلک ہیں'

28 فروری 2015
عائشہ جلال موہٹہ پیلس میں منعقدہ پروگرام سے خطاب کررہی ہیں۔ —. فوٹو وہائٹ اسٹار
عائشہ جلال موہٹہ پیلس میں منعقدہ پروگرام سے خطاب کررہی ہیں۔ —. فوٹو وہائٹ اسٹار

کراچی: سرد جنگ کے بعد پاکستان میں فوجی غلبہ ایک اثاثے کے مقابلے میں زیادہ ذمہ دار ہے۔

یہ بات جمعہ کی شام موہٹہ پیلس میوزم میں معروف مؤرخ عائشہ جلال نے اپنی کتاب پاکستان کے لیے جدوجہد کی نمایاں خصوصیات حاضرین کے سامنے بیان کرتے ہوئے کہی۔

عائشہ جلال نے کہا کہ ان کا کام بین الاقوامی سطح پر پائے جانے والے اس نکتہ نظر کا جواب دینے کی ایک کوشش ہے، جس کے تحت کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک غلطی، ناکام ریاست اور ایک غیرمتعلقہ ریاست ہے۔

انہوں نے کہا اس طرز کے نکتہ نظر کے تحت پاکستان کی تاریخ کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور صرف موجودہ زوایہ نظر کو ہی لیا جاتا ہے۔ ان کی کتاب اس طرز کے نکتہ نظر کا مقابلہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔

اپنے پہلے کام یعنی اپنی دوسری کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1980ء میں انہیں دستیاب وسائل سے انکشاف ہوا کہ سرد جنگ کے اثرات سے پاکستان میں فوجی حکمرانی کو مدد ملی، چنانچہ انہیں اس زاویے سے تحقیق کا راستہ ملا۔

ملک کی بعد از نوآبادیاتی تاریخ میں پاکستان کی پائیدار خصوصیات میں فوجی غلبے کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ عائشہ جلال نے کہا کہ انہوں نے اپنی تحقیق میں صرف دستاویزات پر ہی انحصار نہیں کیا، بلکہ تقسیم کے وقت پر لکھے جانے والے ادب بشمول سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کا بھی ازسرنو جائزہ لیا ہے۔

اپنی کتاب میں دیے گئے تجزیاتی نکات پر بات کرتے ہوئے عائشہ جلال نے سب سے پہلے اس نکتے کو اُٹھایا کہ پاکستان کیوں تخلیق کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ مذہب اس ملک کی تخلیق میں بنیادی محرک تھا۔ اگرچہ کسی حد تک یہ سچ بھی ہے، تاہم اس کو تاریخ میں بہت زیادہ واضح کیا گیا اور بہت کم سمجھا گیا ۔ 1947ء میں دو دشمن ریاستوں میں تقسیم ہوگئے، اور تیسری 1971ء میں وجود میں آئی۔ ایک اور عام تصور یہ بھی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد سے خرابیاں شروع ہوئیں، تاہم دوسری جانب گاندھی بھی انتقال کرگئے تھے۔

عائشہ جلال نے دلیل دی کہ فوجی غلبے کو سرد جنگ کے چیلنجز کے تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ پاکستان داخلی مسائل کو بین الاقوامی تنازعات کے ساتھ خاصے پیچیدہ انداز میں جوڑا جاتا رہا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی جانب انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ انہوں نے اس حوالے سے ’ناگزیر‘ کا لفظ نہیں پایا، اس لیے کہ انسانوں نے اسے اپنا انتخاب بنالیا تھا۔

داخلی مسائل کو بین الاقوامی تنازعات سے جوڑنے کے نکتہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے عائشہ جلال نے کہا کہ پاکستان میں ادارہ جاتی عدم توازن ملک کے قیام کے ابتدائی مرحلے پر ہی شروع ہوگیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 1968ء میں اپنے ڈھاکہ کے وزٹ کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے بنگال کی خودمختاری ملک کے بہتری مفاد میں ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مجیب الرحمان کے پیش کردہ چھ نکات میں سے چار کو تسلیم کرلیا تھا۔

بھٹّو، یحیٰ خان اور شیخ مجیب الرحمان کے درمیان مذاکرات کو کبھی ترک نہیں کیا گیا تھا۔ یہ تو راولپنڈی میں فوجی حکومت تھی جس نے تمام امکانات کو بند کردیا تھا اور جنگ کو آخری حربہ خیال کیا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتے تھے، جیسا کہ انہوں نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات تشکیل دیے اور تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کردیا۔

انہوں نے لاہور میں اسلامی کانفرنس کا کامیابی کے ساتھ انعقاد کیا، جس میں جماعت اسلامی کو اس لیے موقع دیا گیا کہ مولانا مودودی کے سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات تھے، اور سعودی عرب نے شاہ ایران کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے پیٹروڈالرز کا بے دریغ استعمال کیا۔

اس کے بعد انہوں نے تبصرہ کیا کہ ’’ہم اس قوم پرستی کو بھول گئے، جس کے تحت فرقہ واریت نے جنم لیا، جو کہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔‘‘

عائشہ جلال نے کہا کہ ضیاءالحق کی فوجی مداخلت ایک غیرمتوقع تبدیلی تھی، اس لیے کہ کسی کو بھی فوجی دور کی طوالت کی توقع نہیں تھی۔

یہاں بھی دو بین الاقوامی عوامل نے کردار ادا کیا تھا، جن میں سے کچھ اہم واقعات 1979ء میں رونما ہوئے، جیسے کہ ایران کا انقلاب، افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں امریکا مخالف جذبات میں اضافہ ہوتا گیا۔

افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ پاکستان میں تقریباً ایک غیرمعمولی تبدیلی لایا، جیسا کہ افغان جہاد نے جنرل ضیاء کی فوجی حکومت کو نئی زندگی بخش دی۔

اس آمر کی مخالفت کرنے والوں میں شہر کی خواتین بھی شامل تھیں، جنہوں نے ان کی پالیسی کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے کیے، اور لندن میں قائم ایک گروپ نے ایک امریکی سینیٹر کو ایک خط تحریر کیا، جس میں اس کو جنرل ضیاء کی حمایت اور فنڈنگ کے خطرات سے خبردار کیا۔

عائشہ جلال کہا کہ 1999ء کی فوجی بغاوت کے دوران پاکستان ایک مختلف ملک تھا۔ یہاں ایک نئی سیاسی محرکات، فعال عدلیہ، آواز اُٹھانے والا میڈیا، باشعور سوسائٹی کی تشکیل ہورہی تھی۔

اس موضوع پر کہ کیا 2013ء کے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ تھے، انہوں نے کہا کہ وہ اس حد تک آزادانہ تھے کہ پاکستان کے ساختیاتی اور وجودی حقائق نے انہیں اجازت دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’’ایک آزاد اور منصفانہ انتخابات محض ایک خواہش ہی رہے گی، حقیقت نہیں۔‘‘ اور انہوں نے 2013ء کے انتخابات کو ایک سنگِ میل قرار دیا، اس لیے کہ اس میں طالبان کی دہشت گردی کا سامنا تھا۔ ٹی ٹی پی نے جمہوریت کو غیر اسلامی قرار دینے کی مہم شروع کر رکھی تھی۔

اس سوال پر کہ کیا دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے، عائشہ جلال نے کہا کہ ایسا فوری طور پر ہونے والا نہیں۔ عرب اسپرنگ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے اشارہ کیا کہ اسی طرح کی اسپرنگ پاکستان میں بھی علاقائی سطح پر موجود ہیں، جنہیں مرکز نے علیحدگی پسند قرار دے کر مسترد کردیا۔ انہوں نے سیاسی قیادت کو مشورہ دیا کہ وہ علاقائی مطالبات کو تسلیم کرلیں۔

ملکی ترقی کے مثبت پہلوؤں پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے عائشہ جلال نے کہا کہ اس دوران مقبول ثقافت کے پھلنے پھولنے سے ایک بھرپور فنکارانہ روایات کو تشکیل دیا ہے، جو کہ ایک غیرمعمولی کارنامہ ہے۔

پاکستانی فنکاروں کی بڑی تعداد نے برصغیر کے اندر تخلیقی کاموں میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجموعی ناکامی کے درمیان انفرادی کامیابیاں انوکھی نہیں ہیں، انہوں نے زور دیتے ہوئے وضاحت کی کہ انتہاپسندی کے مقابلے میں اعتدال پسندی روحِ پاکستان کے لیے ایک اہم جنگ ہے۔

عائشہ جلال نے کہا کہ یہ خواب موجود ہے اور اس کو ادب اور آرٹ کے ذریعے وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت ایک امید ہے کہ لوگوں کو اس پر انحصار کی ضرورت ہے، اور انہیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ ان کی امنگوں کو ناکام بنایا گیا تھا۔

اس سے قبل ڈان میڈیا گروپ کے چیف ایگزیکٹو حمید ہارون نے مصنفہ کا حاضرین سے تعارف کرایا۔ نسرین عسکری نے اس تقریب کی میزبانی کی، جس کا اہتمام سندھ میں آثارِ قدیمہ کے تحفظ کے ٹرسٹ اور موہٹہ پیلیس میوزیم نے کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں