جب ایک وزیراعلیٰ کی نیند برباد ہوگئی

01 مارچ 2015
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک— فائل فوٹو
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک— فائل فوٹو

خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی، خونریزی اور زخموں سے متاثرہ صوبے کے لیے غیرملکی سرمایہ کاری کو لانے کے لیے دبئی نہ جانے کا فیصلہ کیا۔

وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی نیند اڑ کر رہ گئی ہے جس کی وجہ غیرملکی سرمایہ کاری کی آمد نہیں بلکہ مختلف طرز کے سرمایہ کاروں کی جانب سے صوبے کے ناراض اراکین اسمبلیوں کودولت مند امیدواروں کو ووٹ دینے کے لیے للچانا ہے جس کے لیے وہ دولت سے بھرے بریف کیسز کے منہ کھولنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے گزشتہ ہفتے گورنر ہاﺅس میں اپوزیشن گروپس کے رہنماﺅں سے ملاقات کے دوران کہا " میری نیند تباہ ہوچکی ہے"۔

یہ وہ جگہ تھی جہاں ہارس ٹریڈنگ کی لعنت کو ختم کرنے کے باہمی اتفاق سے ایک فارمولے کی تیاری پر کام کیا جارہا تھا۔

اپنے اراکین کو قابو میں رکھنے کے لیے کے پی اسمبلی کا سب سے بڑا گروپ اعصاب شکن صورتحال سے گزر رہا ہے۔

تاہم باہمی اتفاق کی کوشش ناکام رہی جو کہ ھیرت انگیز نہیں کیونکہ اس اجلاس میں شریک تمام افراد ایسا فارمولہ چاہتے تھے جو ان کے حق میں اچھا ہو اور کوئی بھی اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے پی اسمبلی میں اپنے اراکین کی تعداد سے زیادہ نشستوں کی خواہشمند ہے، اس کے پارلیمانی رہنماءمحمد علی شاہ بچہ نے اس کو بہت سادہ بنادیا ہے : وہ دو سینیٹرز کے جماعتی مطالبے پر مذاکرات کے لیے بااختیار ہی نہیں۔

تیکنیکی طور پر ایک جنرل نشست پر کامیابی کے لیے 17 ووٹوں کی ضرور ہے جبکہ پی پی پی کی کے پی اسمبلی میں صرف پانچ نشستیں ہیں، جبکہ دو نشستوں کے مطالبے کے لیے 34 ووٹوں کی ضرورت ہے یعنی اپنی طاقت سے 29 زیادہ ووٹ۔

اگرچہ عوامی نیشنل پارٹی کی کے پی میں پانچ نشستیں ہیں اور اس نے اپنی حمایت کے لیے پی پی پی امیدواروں کو منتخب کیا ہے جس کے جواب میں خواتین کی نشست پر اپنی امیدوار کے لیے حمایت چاہتی ہے، تاہم اس کے باوجود پی پی پی کو مزید 24 ووٹوں کی ضرورت ہے۔

پی پی پی کے امیدواروں کے یہ ووٹ کہاں سے آئیں گے؟ یہ ذہن گھما دینے والا اربوں روپے کا سوال ہے۔

فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام سولہ اراکین کے ساتھ ایک نشست حاصل کرسکتی ہے مگر اس نے جنرل نشستوں کے لیے دو امیدواروں کو نامزد کر رکھا ہے، ایک مولانا عطالرحمان اور ایک دولت مند منظور خان، جس کا مطلب ہے کہ ان دونوں کو 34 ووٹوں کی ضرورت ہے اور اسے 124 کے ایوان میں پارٹی کی طاقت دیکھتے ہوئے 18 ووٹ کم ہے۔

ڈیڑہ اسمعیل خان کے دو بھائیوں کا معاملہ مساوی طور پر دلچسپ ہے۔ ان میں سے ایک عامر احمد خان ہیں جنھیں آفتاب شیرپاﺅ کی قومی وطن پارٹی نے ٹکٹ دے رکھا ہے جبکہ دوسرے بھائی سینیٹر وقار احمد خان آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔

خاندانی امارات جس میں رپورٹس کے مطابق پچاس ملین ڈالرز لاگت کی لندن کی مہنگی ترین جائیداد بھی شامل ہے اور ماضی میں ایوان بالا میں معمولی یا بغیر کسی سیاسی حمایت کے پہنچنے کے پیش نظر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ایک یا دونوں بھائی ایک بار پھر پولنگ کے موقع پر ماضی کی کارکردگی کو دوہرا نہیں پاتے۔

پی ٹی آئی کی کمزوری : پاکستان تحریک انصاف عددی طور اتنی مضبوط ہے کہ جنرل نشستوں پر اپنے امیدواروں کو بغیر کسی مدد کے منتخب کرسکے مگر یقیناً اس کی اکثریت نے اسے زیادہ کمزور بنادیا ہے، چنانچہ اس کی قیادت نے ہارس ٹریڈنگ پر ہنگامہ مچا رکھا ہے اور اس کی وجوہات بھی موجود ہیں۔

اس پارٹی میں کودساختہ ہم خیال ایم پی ایز کا گروپ موجود ہے جو وزرائ، ناراض اراکین پر مشتمل ہے جو پرویز خٹک کے انتظامی کنٹرول کے انداز، ترقیاتی فنڈز اور ملازمتوں کی کمی ، احترام سے محروم ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ کبھی حاصل نہیں کرسکتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کا کہنا ہے کہ ان پر من مانے فیصلے نافذ کیے جاتے ہیں۔

ایک ایسا فیصلہ جس پر وہ کھلے عام ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں وہ لیاقت خان ترکئی، کے پی کے سنیئر وزیر صحت شہرام خان ترکئی کے والد کو ٹکٹ سے نوازنا ہے، جن کے صوابی سے تعلق رکھنے والے عوامی جمہوری اتحاد پاکستان کے صرف پانچ اراکین اسمبلی میں موجود ہیں۔

تو اس فیصلے پر پرجوش مخالفت پر سیگریٹ بنانے والے ترکئی خاندان کو اپنی جماعت پی ٹی آئی میں مدغم کرنے کا فیصلہ کیا مگر اس سے مخالفت کی شدت میں کمی میں کوئی مدد نہیں ملی۔

پھر اس میں مزید درہم برہم کرنے والے فیچر پارٹی سربراہ عمران خان کے بیانات کی وجہ سے سامنے آئے اور وہ بھی ایک نہیں دو بار، جنھوں نے کم پسندیدہ لاٹ کو ٹکٹوں سے نہیں نوازا۔ یہ لوگ فکر مند ہیں، وہ اس لیے فکر ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ انہیں پارٹی ٹکٹ دوبارہ نہیں ملے گا، جو کہ دوبارہ منتخب ہونے کے امکان سے بھی زیادہ بدتر ہے چاہے کے پی میں پارٹی کی کارکردگی جیسی بھی ہو۔

اس چیز نے پی ٹی آئی کے دوسرے اتحادی جماعت اسلامی کو مشکل صورتحال میں لاکھڑا کیا ہے، جے آئی کے صوبای اسمبلی میں آٹھ اراکین ہیں اور اس نے اپنے سربراہ سراج الحق کو جنرل نشست کے لیے نامزد کررکھا ہے جس کے لیے وہ پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

ووٹوں کی خریداری کی افواہیں بہت زیادہ پھیلنے سے جے آئی نروس ہے اور اس کی قیادت نے پی ٹی آئی سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے قابل اعتماد اور ساکھ والے اراکین کا پینل اس کے حوالے کرے جو اس کے امیر کو انتخابات میں کامیاب کراسکے۔

مسلم لیگ نواز کا معاملہ بھی مختلف نہیں، سترہ اراکین کے ساتھ وہ ایک سینیٹر کو منتخب کراسکتی ہے مگر فکرمند وزیراعظم نواز شریف نے کے پی سے اپنی پارٹی اراکین کو ظہرانے پر مدعو کرلیا۔

دو برس بعد کے پی سے اپنے پارٹی اراکین کو یاد کرنے والے وزیراعظم نے انہیں مچھلی کے تکوں، چانپوں اور سبزی کے سوپ کے ساتھ خوش آمدید کہا، مگر اس دن کے آخر میں مانسہرہ سے پارٹی کے اراکین میں سے ایک وجیہہ الزمان پہلے رکن تھے جنھوں نے پارٹی کے امیدوار جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ترمذی کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے اپنی ماں کو نامزد کیا اور وہ آزاد امیدوار وقار احمد خان کی حمایت اس توقع کے ساتھ کررہے ہیں کہ ڈیرہ اسمعیل خان سے تعلق رکھنے والے اس سینیٹر کے لیے ووٹ حاصل کرسکیں گے جس کے بدلے میں ان کی ماں کو ووٹ مل سکیں گے۔

وزیراعظم کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کی روک تھام کے لیے ایک آینی ترمیم کی کوشش آغاز میں ناکامی کا شکار ہوگئی۔

پی پی پی نے واضح کردیا کہ وہ کے پی میں اپنے دو امیدواروں کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے گی، جبکہ گورنر ہاﺅس کے اجتماع میں نمایاں مولانا نے بھی سیاسی اتفاق رائے کے ہر موقع کو برباد کردیا۔

واضح طور پر مولانا کی نظریں سینیٹ انتخابات سے آگے مرکوز ہیں، ایک بڑی غداری تحریک انصاف کے لیے ہر طرح کے مسائل کھڑے کردے گی۔

افواہوں اور شکوک پر جایا جائے تو ایک رئیل اسٹیٹ ٹائیکون کے ملوث ہونے کے الزامات سامنے آتے ہیں، ایک ہاتھی کمرے میں ہے اور صورتحال وحشتناک ہے۔

آخر میں افواہیں محض افواہیں ہی ثابت ہوں گی اور تمام اراکین اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں گے اور ہر جماعت خوش باش واپس جائے گی اور جمہوریت جیت جائے گی۔

مگر بدترین منظرنامہ درست ثابت ہوا تو اس سے نہ صرف پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت اور خیبرپختونخوا اسمبلی پر بڑا سوالیہ نشان سامنے آئے گا بلکہ یہ ایوان بالا اور ملک میں جمہوریت کی ساکھ پر بھی بہت بڑا داغ ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں