کرکٹ ورلڈکپ : پاکستان کو آج بے خوف ہونا ہوگا

01 مارچ 2015
شاہد آفریدی اور یاسر شاہ برسبین میں تربیت سیسشن کے دوران— اے ایف پی فوٹو
شاہد آفریدی اور یاسر شاہ برسبین میں تربیت سیسشن کے دوران— اے ایف پی فوٹو

یہ ایک بار پھر پاکستان کے لیے امتحانی وقت ہے اور شکر کی بات یہ ہے کہ اب کی بار نصاب بہت زیادہ چیلنجنگ نہیں۔

وہ کبھی نہیں تھا مگر اعتماد اور خود پر یقین کی کمی نے مصباح الحق کی لڑکھڑاتی فوج کے لیے نچلی صفوں میں شامل زمبابوے کو سب سے خطرناک حریف بنادیا ہے۔

جیسن ہولڈر کی ویسٹ انڈیز ٹیم کے ہاتھوں کرائسٹ چرچ میں بھیانک خواب کے تجربے سے گزرے ایک ہفتے سے زائد ہوگیا ہے ، اس وقت ہر کوئی یہ یقین کرنا چاہتا ہے کہ کھلاڑیوں نے اس وقفے کو ری گروپ ہونے اور ورلڈکپ کے ابتدائی جھٹکوں سے سنبھلنے کے لیے استعمال کیا ہوگا جس میں ہندوستان کے ہاتھوں اوپننگ میچ میں شکست بھی شامل ہے مگر متعدد آف فیلڈز واقعات مل کر کوئی اور ہی کہانی سناتے ہیں۔

فیلڈنگ کوچ گرانٹ لیوڈن کے ساتھ کھلاڑیوں کے تنازع کے ساتھ ساتھ احمد شہزاد کے کبھی ختم نہ ہونے والا غصہ ہیڈلائنز بناتے رہے۔ سنیئر کھلاڑی یونس خان کی ٹیم میں جگہ کے حوالے سے بحث بھی شدت پکڑ گئی جبکہ عمر اکمل کی اسٹمپس کے پیچھے ناقص کارکردگی بھی گفتگو کا مقبول موضوع بنا رہا۔

تاہم کیک کی سطح پر آئسنگ چیف سلیکٹر معین خان کا کیسینو جانا اور پی سی بی کی جانب سے آسٹریلیا سے ان کی طلبی رہی جو کہ ٹیم اور ٹورنامنٹ میں اس کے امکانات کے لیے حقیقی حوصلہ شکن امر ثابت ہوا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کی سخت تربیت بھی خبروں میں رہی مگر آف دی فیلڈ اتنا کچھ ہونے کے باعث پرجوش تربیت اس مرحلے پر بمشکل ہی تبدیلی پیدا کرسکتی ہے۔

وسیم اکرم نے گزشتہ ہفتے کھلاڑیوں کو آرام کرکے زمبابوے کے خلاف مقابلے کے لیے تازہ دم ہوکر واپس آنے کا مشورہ دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا " یہ لمبے اجلاس اور تبادلہ خیال جبکہ سخت تربیت سے کچھ اچھا نہیں ہوسکتا، جو کچھ ہوچکا وہ اب بدلا نہیں جاسکتا مگر اب کھلاڑیوں کو لازمی ری گروپ ہوکر بقیہ میچز کے لیے تازہ دم ہوکر واپس آنا چاہئے"۔

یہ مشورہ بدقسمتی سے بہرے کانوں میں گم ہوگیا یا ایسا ہی نظر آتا ہے، تربیتی سیشنز بے تکان جاری رہے جس نے کھلاڑیوں کو تلخ اور تھکاوٹ کا شکار کردیا۔

تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ متعدد عناصر نے ان کی ہمت کو گرا دیا ہے، کسی قسم کا ورک آﺅٹ، حکمت عملی، گیم پلان یا بیٹنگ آرڈر پاکستان کو اوپر لانے والا سہارا نہیں بن سکتا، اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو آسٹریلین کرکٹ کا جائزہ لے کر جانا جائے کہ کرکٹ کا کھیل کیسے بے خوف ہوکر کھیلا جاتا ہے۔

ہفتہ کو آک لینڈ میں آسٹریلیا نے اپنے بے خوف کرکٹ انداز کا مظاہرہ کیا اور طوفانی انداز سے نیوزی لینڈ کو اس گیم میں دفاعی پوزیشن پر لے گیا جہاں مائیکل کلارک کی ٹیم کے لیے شکست طے شدہ نتیجہ نظر آرہی تھی۔

انہوں نے میچ کا اختتام ہاری ہوئی ٹیم کی حیثیت سے کیا مگر یہ بلیک کیپس کے لیے جہنم بنانے سے پہلے نہیں جو اس سے پہلے آسٹریلین ٹیم کے مختصر 151 رنز کے ہدف کے تعاقب میں شکست کو اپنے سینے پر محسوس کرنے لگے تھے۔

ایک اقدام جو مصباح کو آج کے میچ کے لیے اپنانا چاہئے وہ یہ کہ اپنے ساتھی کھلاڑیوں کو بتائیں کہ نتائج سے بے پروا ہوکر بے خوفی سے کھیلیں۔

ہاں یہ مرو یا مار دو والا میچ ہے اور ہاں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو ٹیم کے امکانات کو زندہ رکھیں گے مگر یہ ناگزیر ہے۔

تاہم انہیں برسبین میں زمبابوے کے خلاف دھاڑتے ہوئے شیروں کی حیثیت سے ابھرنا چاہئے بہ نسبت کہ وکٹ پر گھبراہٹ میں مبتلا احمقوں کی شکل میں جیسے اب تک وہ نظر آتے رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں