شکار پر نکلے تیندوے

03 مارچ 2015
کچھ خواتین تیندوں کے حوالے سے لگائے گئے انتباہی بورڈ کے پاس سے گزر رہی ہیں — فوٹو فائزہ الیاس
کچھ خواتین تیندوں کے حوالے سے لگائے گئے انتباہی بورڈ کے پاس سے گزر رہی ہیں — فوٹو فائزہ الیاس

گلیات کے جنگلات کی تنگ پگڈنڈیوں پر چڑھتے ہوئے میں حیران تھی کہ ایک عام تیندوے کے مدمقابل آنے کے کیا امکانات ہیں، جو ہمارے ملک میں اب سب سے بڑا گوشت خور جانور باقی بچا ہے جو پہلے کبھی ایشیائی شیروں اور بنگال ٹائیگرز کا گھر سمجھا جاتا تھا۔

مدھم سردی محسوس ہورہی تھی اور زمین کی مہک سے بھرپور تازہ ہوا زبردست تھی، کچھ دیر چہل قدمی کے بعد ہم باغ بندی کی ایک دکان تک پہنچے، یہ وہ گاﺅں ہے جہاں ایک تیندوے نے گزشتہ ماہ پانچ سالہ لڑکی کو ہلاک کردیا تھا۔

دکاندار صفدر نے ہمیں بتایا " میں نے چند قاتلانہ حملے سے چند روز پہلے ایک تیندوے کو دیکھا تھا، تیندوں نے پہلے کبھی ہمیں نقصان نہیں پہنچایا تھا اگرچہ دیگر دیہات میں ایسا ہوتا رہا ہے"۔

صفدر کو شک ہے کہ علاقے میں بڑی بلیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ اب وہ اکثر نظر آنے لگی ہیں۔

دیہاتی افراد کو اب بھی اپنے خوف پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے ان کے روزمرہ کے دن کا اختتام جلد ہوجاتا ہے اور لوگ سورج غروب ہونے کے بعد گھروں سے نکلنے سے گریز کرتے ہیں، انہوں نے ٹمبر مافیا کی سرگرمیوں پر بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا اور ان کا کہنا تھا کہ یہ مفیا متعدد برسوں سے اس علاقے میں کافی متحرک ہے۔

فرید نامی ایک شخص نے بتایا " میں انہیں گزشتہ پندرہ سولہ سال سے انہیں یہاں کام کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، ہم ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتے اور ہمیں ان کی شناخت کا کوئی اندازہ نہیں مگر روزانہ دس سے پندرہ لکڑی سے لدے خچروں کو جنگلات سے نکلتے دیکھنا عام ہے"۔

اس وقت جب ہم مزید اوپر جارہے تھے محکمہ جنگلی حیات کے ایک افسر محمد نواز نے ایک مقام کی جانب نشاندہی کی۔

انہوں نے کہا " یہ وہ جگہ ہے جہاں تیندوے نے صبا پر حملہ کیا"۔

ایک جانور پھنسانے والا جنگلا اس مقام پر پڑا تھا جہاں دو ٹریک آپس میں مل رہے تھے، محکمہ جنگلی حیات کے حکام کا کہنا ہے کہ محکمے کی جانب سے جانور کو پکڑنے کے لیے کوششوں کی ان افراد کی جانب سے سختی سے مخالفت کی جارہی ہے جو ڈھلانوں میں مقیم ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دیہاتی افراد نے کتے رکھے ہوئے ہیں، وہ اپنے مویشیوں کو آزادی سے گھومنے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ ان کے گھروں میں باڑیں بھی نہیں جس کی وجہ سے وہ تیندوے کے حملوں کے ہدف کے حوالے سے کمزور ہوگئے ہیں۔

صبا کی خالہ ریحانہ بی بی نے بتایا " اس وقت شام کے ساڑھے چھ بجے تھے، میں اپنے والد اور صبا کے ساتھ تھی اور ہم ضلعی ہسپتال سے گھر واپس لوٹ رہے تھے جب تیندوے نے صبا پر حملہ کیا اور اسے اپنے ساتھ لے گیا"۔

انہوں نے بتایا کہ وہ بچی اس وقت زندہ تھی جب اسے دو گھنٹے کے بعد زخمی حالت میں تلاش کیا گیا تاہم ضلعی ہسپتال لے جاتے وقت ہلاک ہوگئی۔

اس خاندان کو کراچی میں ایک سال پہلے صبا کے والد کی ہلاکت کے بعد سے شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے، وہ اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے جو تاحال حکومتی امداد کا منتظر ہے۔

واپسی کے راستے میں ہم نے صبا کی والدہ سے بھی ملاقات کی جو ایک فلاحی تنظیم سے امداد لینے کے لیے ایبٹ آباد گئی ہوئی تھیں۔

بگان نامی گاﺅں کے محمد پرویز جن کی تین سالہ بیٹی ایک سال پہلے تیندوے کے حملے میں بچنے میں کامیاب رہی تھی، بھی امداد کے منتظر خاندانوں میں سے ایک ہیں " مجھے ایک گاڑی کو ڈھونڈنے میں ڈھائی گھنٹے کا وقت لگا جس پر میں اپنی شدید زخمی بیٹی کو ایبٹ آباد کے ضلعی ہسپتال لے گیا"۔

محکمہ جنگلی حیات کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایبٹ آباد میں 1993 سے تیندوں (ملک میں محفوظ قرار دیئے جانے والے جانوروں میں سے ایک) نے نو افراد کو ہلاک اور بیس کو زخمی کیا ہے۔1986 سے 76 تیندوں کو ذاتی دفاع کرتے ہوئے ہلاک کیا گیا جبکہ آٹھ قدرتی وجوہات کی بناءپر مارے گئے جبکہ 1993 سے اب تک تیندوں کے ہاتھوںایک ہزار سے زائد مویشی، جن مین نو سو کے لگ بھگ بھیڑیں شامل تھیں، پر یا تو حملے ہوئے یا ہلاک ہوگئے۔

ڈویژن فارسٹ اور وائلڈ لائف آفیسر فائق خان نے بتایا " بیشتر حملے علی الصبح ہوئے یا سورج غروب ہونے کے بعد ہوئے، یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بڑی بلیاں بہت زیادہ متحرک ہوتی ہیں"۔

انہوں نے مزید بتایا کہ محکمہ لوگوں کو تیندوں کے حملوں سے بچاﺅ کی تعلیم دے رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے زرتلافی صرف ان خاندانوں کو دی جاتی تھی جو کسی حملے میں اپنے پیاروں سے محروم ہوجائیں مگر اب اس امدادی رقم کو (گزشتہ ماہ خیبرپختونخوا میں نئے وائلڈ لائف ایکٹ نافذ ہونے کے بعد) بڑھا دیا گیا ہے اور لوگوں کو کسی بھی قسم کے نقصان یا زخمی ہونے کی صورت میں مالی امداد کی پیشکش کی جاتی ہے۔

فائق خان نے بتایا کہ جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے ہمارا محکمہ صرف محفوظ علاقوں کا ذمہ دار ہے جیسے ایوبیہ نیشنل پارک جہاں جنگلات ارگرد کے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ گنجان ہیں (وہ گاﺅں جہاں حالیہ حملہ ہوا پارک سے باہر ہے)۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی بائیوڈائیورسٹی ڈائریکٹر عظمیٰ خان برسوں سے پاکستان میں تیندوں پر تحقیق کے کام میں شامل ہیں، انکا کہنا ہے " جنگلات کی کٹائی بڑھنے، تیندوں کے رہنے کے مقامات پر انسانی مداخلت بڑھنے اور بڑی بلیوں کے قدرتی شکار کی ہلاکتوں نے اس درندے کو خوراک کی تلاش کے لیے انسانی بستیوں کا رخ کرنے پر مجبور کردیا ہے، اگر تیندوں کے علاقوں کے تحفظ کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو انسان اور درندے کے درمیان ٹکراﺅ بڑھے گا"۔

ان کے مطابق ایوبیہ نیشنل پارک اور ارگرد کے علاقوں میں صرف سات تیندوں کو ہی انفرادی طور پر شناخت کیا جاسکا ہے، متعدد کو ہلاک کردیا گیا ہے اور یہ کہنا درست نہیں کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ ان کی آبادی کے حوالے سے کوئی بنیادی تحقیق ہی نہیں ہوئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ تیندوں کے حملے ایوبیہ نیشنل پارک کے مغربی اطراف کی جانب زیادہ ہورہے ہیں جہاں جنگلات کا رقبہ نمایاں حد تک کم ہوا ہے۔

انہوں نے کہا " ایک نر تیندوے کی رینج ایوبیہ نیشنل پارک کے موجودہ رقبے سے زیادہ بڑی ہے (گلیات کا تیندوں کے لیے واحد محفوظ مقام)"۔

عظمیٰ نے کہا " حکومت کو محفوظ پارک کا سائز بڑھانا چاہئے اور گورال کی شرح افزائش بڑھانے جبکہ بڑی بلیوں کو غذا فراہم کرنے کے پروگرام شروع کرنے ہوں گے"۔

تبصرے (0) بند ہیں