ایک دن ہمارے نام بھی

03 مارچ 2015
بنگلہ دیش میں خواجہ سراؤں کی پریڈ میں شریک ایک خواجہ سراء کیمرے کی جانب دیکھتے ہوئے — اے پی فوٹو
بنگلہ دیش میں خواجہ سراؤں کی پریڈ میں شریک ایک خواجہ سراء کیمرے کی جانب دیکھتے ہوئے — اے پی فوٹو

اس نے آتے ہی اپنا ہینڈ بیگ کھولا اور اس میں سے سستا سا سگریٹ نکال کر سلگایا اور اس کا کچھ دھواں ہوا میں دھکیلتے ہوئے اور کچھ میری طرف پھینکتے ہوئے اندازِ دلبرائی سے گفتگو کا آغاز کیا:

'صنفی تشدد کے خلاف احتجاج کا دن بھی منایا جاتا ہے، بچوں کا عالمی دن، خواتین کا عالمی دن، پانی کا عالمی دن اور بھی بہت سے دن ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے منائے جاتے ہیں، بڑی بڑی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، تقریریں کی جاتی ہیں، طرح طرح کے راگ الاپے جاتے ہیں، ہم خواجہ سراؤں کو تھوڑی دیر کے لیے مرد اور عورت کی درجہ بندی سے نکال کر ایک زندہ انسان فرض کر لیں تو کیا پورے سال میں ایک دن آپ ہمارے نام نہیں کر سکتے؟

پڑھیے: 'پارلیمنٹ میں خواجہ سراؤں کی نمائندگی ضروری'

'عورتوں پر یہ ظلم ہو رہا ہے ان کے حقوق مارے جا رہے ہیں طرح طرح کے قصے کہانیاں بنا کر لمبی لمبی تقاریر کی جاتی ہیں، پروگرامز پیش کیے جاتے ہیں، ہر چینل پر مظلوم خواتین کو لا کر بٹھا دیا جاتا ہے اور ریٹنگ کو بڑھانے کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلے جاتے ہیں، مگر کسی نے ہمارے بارے میں بھی سوچا ہے کہ آدھی عورت کا وجود تو ہمارے اندر بھی پوشیدہ ہے۔ میں تو کہتی ہوں کہ عورت پر ظلم اگر ہوتا بھی ہے تو اس میں زیادہ ہاتھ خود کسی نہ کسی عورت کا ہی ہوتا ہے، اگر کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہو بھی جائے، تو باپ کا تو جو حال ہوتا ہے، ماں بھی پیچھے نہیں رہتی۔ وہ ایک عورت ہو کر ایک عورت کا وجود اس دنیا کو دیتے ہوئے شرم کیوں محسوس کرتی ہے؟'

اتنا کہنے کے بعد وہ رک کر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔ میں نے سوچا کہ کچھ نہ کچھ تو اب مجھے بھی کہنا چاہیے تاکہ اسے احساس ہو کہ میں نے اسے اہمیت دی ہے۔ میں نے سب سے پہلے تو حقوق نسواں کے حوالے سے اس کی معلومات کی داد دی کہ اس کی قابلیت کا قائل ہوگیا ہوں مگر۔۔۔۔ اس نے میری بات کو کاٹتے ہوئے پھر سے اپنی گفتگو کے اسی سرے کو پکڑ لیا جہاں سے چھوڑا تھا۔ جذبات کی شدت سے اس کا میک اپ زدہ چہرہ اور بھی زیادہ دمک رہا تھا۔ کہنے لگی 'ہاں اب یہ نہ کہنا کہ اس وقت پورا ملک ہی بحرانوں کا شکار ہے اور میں ایک اور مسئلہ اٹھا کر آگئی ہوں۔

تصاویر: بنگلہ دیش میں خواجہ سراؤں کا پہلا دن

'بھائی جی حالات پوری دنیا میں ایک سے نہیں رہے ہیں، مگر ہمارا حال تو ہر طرح سے بدتر سے بدتر ہو کر رہ گیا ہے۔ ہمارے پاس تو روزگار کی بھی ایک ہی صورت ہے کہ ناچ گانا اور دل لبھانا۔ ہم ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے ہمیں شناختی کارڈ بنوا کر دے دیے مگر اس سے آگے بھی تو کام بڑھنا چاہیے ناں۔ نہ ہمارے لیے دینی تعلیم اور نہ دنیاوی تعلیم، بس تفریح سے آگے ہماری کوئی شناخت ہی نہیں ہے اور تفریح بھی تیسرے درجے کی۔

'اب تو زمانہ بدل گیا ہے۔ پہلے جب ہمیں پتا چلتا کہ کسی کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے تو ہم ناچتے گاتے ہوئے جاتے اور بیٹے کی صورت میں اگر دو سو روپے ملتے تھے تو بیٹی کی صورت میں پچاس بھی مل جاتے تھے۔ اب تو خوشی میں ناچنے گانے کا کام گھر والوں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے، ہمیں باہر سے ہی بھگا دیا جاتا ہے۔ ہائے مجھے تو آج بھی گرو جی کی باتیں یاد آ رہی ہیں جب نیا نیا سی ڈی کا دور آیا تو اس نے کہا کہ بچیوں اب کیسٹوں کو آگ لگا دو اور اپنے اپنے مستقبل کی فکر کرو، ایک دن آئے گا جب کوئی تمہیں نہیں پوچھے گا، تم لوگ گم ہو کر رہ جاؤ گے۔ وہی ہوا آج میموری کارڈ اور یو۔ایس۔بی میں ہزاروں گانے آ جاتے ہیں اور ڈی جے نے نہ صرف بینڈ باجے والوں کے روزگار کو تالے لگا دیے ہیں بلکہ ہمارا بھی بوریا بسترا گول کر دیا ہے ورنہ وہ بھی کیا زمانہ تھا لوگ فنکشنز میں ہماری مخصوص آوازوں میں گانوں کی فرمائشیں کرتے تھے۔

مزید پڑھیے: انڈین خواجہ سراؤں کے لیے تیسری جنس کا درجہ

'خیر میں اصل دکھ کی طرف پھر سے آتی ہوں میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ آپ کسی طرح میرا یہ پیغام دنیا بھر میں پھیلا دیں کہ سال کے 365 دنوں میں ایک دن ہمارے لیے بھی مختص کر دیا جائے جس میں عام لوگوں تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ہمارا شمار بھی انسانوں میں کیا جائے۔ ہمیں صرف جسمانی تفریح کا ذریعہ نہ سمجھا جائے۔ کوئی ادارہ ہمارے لیے بھی بنایا جائے جہاں تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کا انتظام بھی ہو جس سے ہم با عزت طریقے سے روزگار کا سلسلہ چلا سکیں۔

'ہماری شناخت ادھوری ہے مگر زندگی تو ہم بھی مکمل رکھتے ہیں۔ کوئی سستا رہائشی منصوبہ ہمارے نام بھی کر دیا جائے جہاں ہم سکون سے تحفظ کا احساس لیے جی مر سکیں۔ میں نے تو خان صاحب سے بھی گزارش کی تھی کہ اس نئے پاکستان میں ہمارے لیے بھی کوئی جگہ نکالیں ورنہ اسی پاکستان میں ہمیں کسی سرحدی گاؤں ہی میں کچے پکے مکان بنانے دیں، ہم سرحدوں کی حفاظت بھی کر لیں گے۔ ہم نے ایک وزیر کے گھر فنکشن کیا اور ایمانداری کی بات ہے کہ مقررہ وقت سے زائد ہی ناچے پھر پیسے بھی آدھے لیے کہ وہ بڑے میاں صاحب یا چھوٹے میاں صاحب سے ہمارے حقوق کی بات کریں مگر اس مسکین نے تو بیچارگی سے کہا کہ وہ ہماری نہیں سنتے تو تمہاری کیا سنیں گے۔'

اس کا سگریٹ ختم ہو چکا تھا اور شاید اتنا کچھ کہہ کر دل کا بوجھ بھی کافی کم ہو چکا تھا، وہ جس تیزی سے آئی تھی اسی تیزی سے آفس سے باہر چلی گئی مگر وہ اپنا بوجھ اور بہت سے سوالات مجھے دے گئی تھی۔

تبصرے (7) بند ہیں

Ms Lashari Mar 03, 2015 01:24pm
Thought provoking writing, totally agreed... In this most advanced era where advancements are being made... speeches are being delivered on ethics,religion and humanity but no one dares speaking about these people . Even no one considers them to be humans.... Is this the real world? Are we the only eligible to be called humans.? They are not by their choice and neither you and I are out of our choices... that Allah the Almighty Who is the Lord of all. ... I request all the readers......please for Allah's sake RESPECT these persons .They deserve all the rights. Pls donot pity but realize their values ,their role.
shahbaz ali khan Mar 03, 2015 11:10pm
یہ ایک المیہ ہے کہ ہم کس حد تک بے حس ہو چکے ہیں.یہ آرٹیکل فکشن نہیں ہے بلکہ حقیقی واقعہ ہے جو میرے ساتھ پیش آیا جب میں ایک چیمبر میں بیٹھا تھا. اسکی بہت سے باتیں بہت کڑوی بھی تھیں.جیسے ہم نے انہیں کوئی بھی مذہب اپنانے کی اجازت نہیں دی ہے،تعلیمی اداروں تک سے انہیں دور رکھا ہے.انکا ہماری ثقافت میں جو کردار ہے اسے بھی ہم نے تیسرے درجے کی تفریح تک محدود کر دیا ہے.پولیس کیس ہو تو مرد حضرات ہی ان سے تفتیش کرتے ہیں اور ان کا استحصال ہر حد تک جا کر کیا جاتا ہے.
عظیم حسن Mar 04, 2015 12:12am
شہباز صاحب اچھا ایشو ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ایشو پر زیادہ سے زیادہ بات کی جائے ۔ لیکن آپ اگر اس ایشو پر یکطرفہ بات کریں گے تو جو اس وقت ان لوگوں کا اپنا ایک کردار ہے جو فی الذاتہی ان کے لئے نقصان دہ ہے ان کو بھی تو خود کو زیادہ پروڈکٹو بنانا چاہیے ان کے کسی ایک سے مل تو سمجھو ہزاروں سے مل لیا اگر یہ عام سکول میں داخلہ لیں تو کون ہے جو ان کو روکے گا لیکن اگر یہ اپنی جسمانی ساخت کے حوالے سے مجبور ہوتے ہوے ایسی ہی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو اس میں بھی کمال کر کے دکھائیں نا میرا مطلب ہے یہ خود بھی تو اپنے لیئے کچھ کریں نا
محمد ارشد قریشی Mar 04, 2015 10:16am
یہ ایک بہت اہم ایشو ہے اس طرح کے لوگوں کو بہت سے مسائل درپیش ہیں کچھ اس معاشرے کی وجہ سے ہیں اور کچھ ان کے خود کے پیدا کردہ ہیں اس بلاک کو پڑھتے ہوئے مجھے کچھ عرصہ قبل کا ایک واقع یاد آگیا کہ ایک خواجہ سراء کا انتقال ہوگیا جب اسکا جنازہ پڑھانے کا وقت آیا تو مولوی صاحب نے جنازہ پڑھانے سے انکا ر کردیا کہ مجھے بتایا جائے کہ میں کس کا جنازہ پڑھاؤں ایک عورت کا یا ایک مرد کا اور اس بات پر بہت دیر تک بحث ہونے کے بعد ان کا جنازہ اس مرد کا پڑھایا گیا۔
Ms Lashari Mar 04, 2015 02:14pm
i dont know that why we have double standards... we see a blind / deaf or person with any physical disability....we have fear of Allah Almighty and we try out best to be merciful with them.. though we cant do much for them but we try to be nice at least..... BUT when it occurs to this community we ll always look at them with rage.Eyes will turn emotionless, Heart will be feeling less... i have just one thing to say that please please consider them humans.. Don't turn your eyes from them.. give them prestige then they will defintley play their role respectfully.respect does not cost anything but can give them the whole world...
Ms Lashari Mar 04, 2015 02:20pm
@Dear shahbaz ali khan u r right. i can understand how a person becomes speech less in such situation because we are also a part of this society and the liability will be ours too There is the need to address this topic again n again to educate the masses ..
Shahbaz Ali Khan Mar 05, 2015 10:11am
@محمد ارشد قریشی بالکل ایسا ہی ہے ہم نے ان سے انکی شناخت کے ساتھ ساتھ تعلیم اور مذہب بھی چھین لیا ہے.انکے ساتھ ہسپتالوں اور تھانہ کچہری میں جو حال ہوتا ہے اس سے بڑھکر اس وقت ہوتا ہے جب دن کے اجالوں میں قبرستان میں بھی انہیں جگہ نہیں دیتے ہیں.انکی بہت سی تنظیمیں جو انکے حقوق کی جنگ لڑنے کا دعوی کرتی ہیں وہ بھی انکے ساتھ مخلص نہیں ہیں. سرکار کے اپنے چونچلے ہیں جن سے انہیں فرصت ہی نہیں ملتی ہے.