تباہ کن فاسٹ فوڈز کی بڑھتی ہوئی مانگ

اپ ڈیٹ 05 مارچ 2015
وہ ہم پر اشتہارات کی بمباری جاری رکھتے ہیں اور ہم ان کے چکر میں آجاتے ہیں۔ کیا انتخاب کی آزادی یہی ہے؟ — اے ایف پی
وہ ہم پر اشتہارات کی بمباری جاری رکھتے ہیں اور ہم ان کے چکر میں آجاتے ہیں۔ کیا انتخاب کی آزادی یہی ہے؟ — اے ایف پی

ستر کی دہائی کی بات ہے۔ میں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے کاؤنٹر سے اپنا برگر اٹھایا، اور اسے لے کر کھانے بیٹھا۔ وہ الجھن کا شکار لگ رہا تھا اور اپنے برگر کو غور سے دیکھنے لگا۔

آخر کار ایسے لگا جیسے اسے کچھ سمجھ آگیا ہو۔ اس نے اپنے برگر کا اوپر والا بن ہٹایا اور ایک سائیڈ پر رکھ دیا۔ پھر اس نے لوازمات بھی ہٹا کر ریپر پر رکھ دیے۔ پھر اس نے کباب نکالا اور باقی تمام اجزا سے الگ کر کے رکھ دیا۔ اور پھر وہ بن کو روٹی کی طرح توڑ کر کباب کے ساتھ کھانے لگا۔

ہم اب اس وقت سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔ آج کل انتخاب کی آزادی اور فری مارکیٹ اکانومی کا دور ہے۔ اقتصادیات کے اس ماڈل کا بنیادی خیال یہ ہے کہ انسان سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، اور اس لیے وہ مارکیٹ میں موجود ہر چیز کے خریدنے یا نہ خریدنے کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں۔

یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ کم ترین غذائیت، اور نقصانات میں زیادہ کھانے زبردست اشتہاری بجٹ رکھتے ہیں۔ آپ نے کتنی بار تازہ سبزیوں اور دالوں کے اشتہارات دیکھے ہیں جو ہوتے تو صحت بخش ہیں لیکن دکھنے میں سادہ سے لگتے ہیں؟ س سے زیادہ اشتہارات ہمیشہ آلو کے چپس، چاکلیٹوں، برگرز، اور تلی ہوئی چکن کے ہی ہوتے ہیں جن سے اخبارات، ٹی وی اور بل بورڈز بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔

پڑھیے: قدرتی کھانے یا پیک شدہ کھانے؟

میرے بائیں جانب کوکا کولا کی بوتل رکھی ہے جس کا وزن ۱۴۰ کیلوریز ہے جبکہ دائیں جانب پانی کا گلاس ہے جس میں صفر کیلوریز ہیں۔ آپ کیا پینا پسند کریں گے؟

یہ بات صاف ظاہر ہے کہ صارفین پر اشتہارات کی بمباری اتنی شدت سے کی جاتی ہے کہ بسا اوقات وہ ان اشیا کا بھی انتخاب کر بیٹھتے ہیں جو ان کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتیں۔

کھانے کا مقصد زندگی کو برقرار رکھنا ہے، لیکن آج کل کھانے پینے کی چیزوں کا انتخاب ہلاکت خیز بھی ہوسکتا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک میں موٹاپا اموات کی وجہ بنتا ہے جبکہ اسے روکا جا سکتا ہے۔ موٹاپا ذیابیطس، دل کے امراض، کینسر، فالج، یادداشت میں کمی اور الزائمر، اور کئی دیگر امراض کا سبب بنتا ہے۔

پاکستان میں فاسٹ فوڈ کھانوں کا رجحان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور ہر سماجی اور اقتصادی پسمنظر والے پاکستانی اب جنک فوڈ کھانے کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ خوشحال طبقے کے لوگ میکڈونلڈز اور کے ایف سی میں کھاتے ہیں، جبکہ کمزور مالی حیثیت والے لوگ نورا فرینچ فرائز اور بسم اللہ برگر سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔

— فوٹو بشکریہ لکھاری
— فوٹو بشکریہ لکھاری
— فوٹو بشکریہ لکھاری
— فوٹو بشکریہ لکھاری

کیا انسان خودکشی کر رہے ہیں؟ نہیں۔ لیکن کئی تحقیقوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کھانے پینے کے انتخاب میں وہ حد سے زیادہ سست ہیں۔

پاکستان میں فاسٹ فوڈ کھانے کے رجحان پر یورپین جرنل آف اکنامکس، فنانس اینڈ ایڈمنسٹریٹو سائنس کے ۴۸ویں شمارے (۲۰۱۲) میں شائع ہونے والی ایک تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔

یہ تحقیق لاہور اور فیصل آباد میں کی گئی تھی، جس میں ۱۰۰ لوگوں کا انٹرویو لیا گیا تھا:

• ۸۹ فیصد نے کہا کہ وہ باقاعدہ ڈنر یا گھر پر پکانے کے بجائے فاسٹ فوڈ کو ترجیح دیں گے۔ • جب پوچھا گیا تو ۷۰ فیصد کا کہنا تھا کہ فاسٹ فوڈ موٹاپے کا سبب بنتا ہے۔ • ۷۰ فیصد نے کہا کہ فاسٹ فوڈ کا انتخاب کرنے کی وجہ صرف آسانی ہے۔

مزید پڑھیے: موٹاپے سے نجات کے دس طریقے

فاسٹ فوڈ کی قیمت اب بھی پاکستان جیسے ممالک میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ ۶۰ فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ قیمتوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ نتیجتاً ملک کے نچلے طبقے کے لوگ موٹاپے کا شکار کم ہیں۔

کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ پاکستان کے غریب لوگ امرا کے مقابلے میں زیادہ صحت مند ہیں، لیکن موٹاپے کا مسئلہ اقتصادی طور پر پسماندہ ملک میں بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ باقی دنیا کی طرح پاکستان کے بھی تمام طبقات میں فاسٹ فوڈز کے استعمال کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔

پاکستان میں کی گئی تحقیق کے نتائج دنیا کے باقی ممالک میں کی گئی تحقیقوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ واضح طور پر اس بات کا اشارہ ہے کہ کس طرح منصوبہ بندی سے چلائی گئی اشتہاری مہمات ثقافتی اور زمینی سرحدوں کو مٹا سکتی ہیں۔ ایسا کھانے کے معاملے میں ہو چکا ہے جو ویسے تو ہر ثقافت میں الگ الگ ہوتا ہے لیکن اشتہاری مہمات نے ساری دنیا کو تقریباً ایک ہی طرح کے فاسٹ فوڈز کا عادی بنا دیا ہے۔

اس رجحان کو کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے؟

فاسٹ فوڈز پر مکمل پابندی یا فاسٹ فوڈز کی اشتہاری مہمات کے اخراجات پر پابندی لگا کر۔

کیتھی بیلس، جو یونیورسٹی آف ایلینائے، اربنا شیمپین میں ایگریکلچر اینڈ کنزیومر اکنامکس کی پروفیسر ہیں، نے کینیڈا کے صوبے کیوبک میں ۱۹۸۴ سے ۱۹۹۲ کے دوران جنک فوڈز کے اشتہارات پر لگائی گئی پابندی کے اثرات پر تحقیق کی تھی۔ انہوں نے پایا کہ اس طرح ہر ہفتے فاسٹ فوڈز پر ہونے والے اخراجات میں ۱۳ فیصد کمی واقع ہوئی۔

بچوں میں غذائیت، اور فاسٹ فوڈز کے نقصانات کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہیے۔ اسکول اس حوالے سے کافی مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔

جانیے: دماغ کو تیز بنانے والے 12 سپرفوڈ

لیکن بدقسمتی سے حقیقت یہ ہے کہ جب تک انتخاب کرنے کی آزادی کا مفروضہ مقدس سمجھا جاتا رہے گا، تب تک نوعِ انسانی اپنی صحت تمباکو نوشی، شراب نوشی، اور تباہ کن چیزوں سے بھی تباہ کن، فاسٹ فوڈز سے تباہ کرتی رہے گی۔

فاسٹ فوڈز کے نقصانات پر تو بہت بات ہوگئی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا میرے پاس اب بھی میری دراز میں میکڈونلڈز کے ڈسکاؤنٹ کوپن پڑے ہیں؟ اور یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ کیا ڈسکاؤنٹ کوپنز پر برگر کا سائز بڑھوایا جا سکتا ہے؟

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں