وزیراعظم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونے کا امکان؟

04 مارچ 2015
سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک منظر—۔فائل فوٹو اے ایف پی
سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک منظر—۔فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد : سپریم کورٹ منگل کو وزیراعظم نواز شریف کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کے قریب اس وقت پہنچ گئی جب اس نے ایک حکومتی موقف مسترد کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ تمام 43 کنٹونمنٹس بورڈز میں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ایک آرڈنینس تیار ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ جو تین رکنی بینچ کی سربراہی کررہے تھے، نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا " بس بہت ہوگیا یہ ہمارے لیے (توہین عدالت) کا نوٹس جاری کرنے کے لیے کافی ہے کیونکہ بادی النظر ہمارے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہورہا"۔

عدالت نے اپنے انیس مارچ 2014 کے حکم پر عملدرآمد کا معاملہ اٹھایا جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو سندھ اور پنجاب میں حلقہ بندیوں کا اختیار اور پھر بلدیاتی انتخابات کرانے کی ہدایت کی گئی تھی۔

عدالت نے کوئٹہ کے کنٹونمنٹ بورڈ کے سابق نائب صدر ایڈووکیٹ راجا رب نواز کی دائر کردہ توہین عدالت کی پٹیشن کی بھی سماعت کی۔

آخری بار کنٹونمنٹ علاقوں میں بلدیاتی انتخابات اکتوبر 1998 میں ہوئے تھے۔

انیس مارچ کو عدالت نے اپنے حکم میں ای سی پی کو پانچ ماہ کے اندر یعنی پندرہ نومبر 2015 تک بلدیاتی انتخابات کا تمام عمل مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اب 27 فروری کو اعلیٰ عدلیہ نے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے طلب کیا تھا تاکہ تعین کیا جاسکے کہ کیا عدالت کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کے احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے پر وزیراعظم کو ذمہ دار سمجھے یا نہیں۔

منگل کو مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے کہا " آرڈنینس تیار ہے اور ہمیں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سیشن کے التواءکا انتظار ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس کے ملتوی ہونے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر آرڈنینس کو لاگو کردیا جائے گا۔

مگر عدالت اس سے مطمئن نہیں ہوئی اور جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا " اب تک کچھ ہوتا نظر نہیں آیا"۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کنٹونمنٹ بورڈز ایکٹ 1924 میں ترمیم کے لیے ایک بل قومی اسمبلی میں پانچ دسمبر 2013 سے زیرالتواءہے جسے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع میں ایوان میں پیش کرنے سے پہلے جمع کرایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب اسمبلی میں ترمیمی بل پر کافی عرصے تک غور نہیں ہوا تو پھر حکومت نے اس سے ملتے جلتے آرڈنینس کے نفاذ پر غور کیا جسے منظوری کے لیے وزیراعظم کو ارسال کیا گیا۔

اٹارنی جنرل کے مطابق مگر وزیراعظم کے دفتر نے اسے وزارت قانون کو رائے لینے کے لیے بھیج دیا کیونکہ اسی طرح کا ایک بل پارلیمنٹ میں التواءمیں موجود ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا " یہ بظاہر کچھ زیادہ متاثر کن نہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ عدالت کے لیے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کے لیے کافی ہے " ہم مقدمے کی حساسیت سے واقف ہیں اور اس طرح کے معاملات کو اتنا ہلکا نہیں لیا جاتا بلکہ یہ سمجھے کی کوشش کی جاتی ہے عوام طویل عرصے سے مشکلات کا شکار ہیں اور عدالتیں تماشائیوں کی طرح نہیں بیٹھ سکتیں"۔

انہوں نے پٹیشنر رب نواز کی عدم حاضری پر مقدمے کی سماعت بدھ تک ملتوی کرنے سے پہلے کہا " مگر ہم توہین عدالت کا نوٹس (وزیراعظم کے خلاف) اس وقت جاری کریں گے جب اس کی ضرورت ہوگی"۔

انہوں نے پٹینشر کو بدھ کو عدالت میں پیش ہونے کی بھی ہدایت کی۔

سپریم کورٹ کو ایک خط بھی موصول ہوا ہے جس میں بلدیاتی حکومتوں کے نہ ہونے کے باعث عوام کی مشکلات کو اجاگر کیا گیا ہے جس کا ذکر منگل کو عدالت میں کیا گیا۔

محمد اسمعیل نے یہ خط جمعے کو مقدمے کی آخری سماعت کا احوال اخبار میں پڑھ کر لکھا جس میں شہر کا ذکر نہیں کیا گیا تاہم جسٹس جواد ایس خواجہ کے نام اس خط میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ یونین کونسل میں مصدقہ ب فارم کے حصول کے لیے اسے پانچ ہزار روپے رشوت دینے کا کہا گیا جس کے ذریعے وہ اپنی بیٹی کو اسکول میں داخلہ کرانا چاہتا تھا۔

اسمعیل کا کہنا تھا کہ اگر بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہوتے تو وہ ضلع ناظم کے پاس اپنی شکایت لے کر جاسکتا تھا۔

عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا " ہم وہ وجوہات جاننا چاہتے ہیںکہ آخر کیوں لوگ اپنے فرنچائز کے حق سے محروم اور آخر کیوں وہ یہاں سے وہاں بھاگ رہے ہیں"۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو یہ تصور ذہن سے نکال دینا چاہئے کہ عوام کچھ نہیں بلکہ وہ ملک کے تیسرے درجے کے شہری بھی نہیں۔

عدالت نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ ہی صوبے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں سنجیدہ ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں