کراچی جیل میں شفقت حسین کو پھانسی

اپ ڈیٹ 04 اگست 2015
قتل کے مجرم شفقت حسین کی لاش کو ایمبولینس کے ذریعے منتقل کیا جارہا ہے—اے ایف پی۔
قتل کے مجرم شفقت حسین کی لاش کو ایمبولینس کے ذریعے منتقل کیا جارہا ہے—اے ایف پی۔
—اے ایف پی۔
—اے ایف پی۔
—اے ایف پی۔
—اے ایف پی۔

کراچی:2012 سے سزائے موت سے بچتے آ رہے سات سالہ بچے کے قاتل شفقت حسین کو بلاآخر منگل کی صبح کراچی کی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

شفقت کو اہل خانہ سے ملاقات اور ڈاکٹر کے طبی معائنہ کے بعد سخت سیکیورٹی پہرے میں پھانسی دی گئی۔

آج ضلع گجرات میں بھی ایک قتل کے مجرم کو تختہ ڈار پر لٹکایا گیا جبکہ ملتان میں ایک پھانسی ملتوی کر دی گئی۔

2004 میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے شفقت کو سات سالہ عمیر کو قتل کرنے کا جرم ثابت ہونے پرپھانسی کی سزا سنائی تھی۔

عدالتی کارروائی کے دوران استغاثہ کا کہنا تھا کہ ایک رہائشی عمارت ندیم آرکیڈ کے چوکیدار شفقت نے تاوان کیلئے عمیر کو اغوا کرنے کے بعد اسے قتل کر دیا۔

سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے شفقت کی سزائے موت کے خلاف اپیلیں مسترد کر دی تھیں۔

دسمبر، 2007 میں سپریم کورٹ نے ان کی نظر ثانی درخواست جبکہ صدر نے جولائی ، 2012 میں ان کی رحم کی اپیل مسترد کی۔

شفقت حسین 2012 سے سزائے موت سے بچتے آ رہے تھے کیونکہ ان کے اہل خانہ کا دعوی تھا کہ قتل کے وقت شفقت کی عمر صرف 14 برس تھی اور نابالغ ہونے کے باعث سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔

تاہم ، بعد میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جیل ڈاکٹر کے حوالے سے بتایا تھا کہ شفقت حسین قتل کے وقت بالغ تھے اور کسی بھی مرحلے پر ان کی کم عمری کا نکتہ نہیں اٹھایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شفقت حسین کے کیس کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے اور نہ ہی اس معاملے پر سیاست کی جانی چاہیے۔

اس تنازعہ کی وجہ سے شفقت کے ڈیتھ وارنٹ چار مرتبہ معطل کیے گئے اور بلا آخر جیل حکام کی درخواست پر اے ٹی سی-تھری نے 27 جولائی کو پانچویں مرتبہ ڈیتھ وارنٹ جاری کیے، جس کے بعد انہیں منگل کی صبح پھانسی دے دی گئی۔

گجرات میں پھانسی

گجرات کی ضلعی جیل میں قتل کے مجرم غلام حسین کو پھانسی دی گئی۔ غلام حسین پر پندرہ سال قبل اپنے مخالف کو قتل کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا۔

سزا پر عمل درآمد ملتوی

ملتان میں عدالت سے حکم امتناعی آنے پر سزائے موت کے قیدی مقبول ڈوگرکی پھانسی ملتوی کر دی گئی۔ ڈوگر پر الزام ہے کہ انہوں نے1996 میں ایک شخص کوقتل کردیا تھا۔

یاد رہے کہ پاکستان میں طویل عرصہ تک سزائے موت پر پابندی رہی لیکن پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 132 بچوں سمیت 144 افراد کی ہلاکت کے بعد یہ پابندی اٹھا لی گئی ۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں 8 ہزار سے زائد افراد سزائے موت کے منتظر ہیں۔

پابندی اٹھائے جانے پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور یورپی یونین نے پاکستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں