کراچی: سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر مایع قدرتی گیس (ایل این جی) کی مہنگی قیمت پر درآمد کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اس متنازعہ مسئلے پر بحث کے لیے مشترکہ مفادات کی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانا چاہتی ہے۔

خزانہ اور توانائی کے صوبائی وزیر سید مراد علی شاہ کے ہمراہ وزیراعلیٰ سندھ نے ایک پریس کانفرنس کو بتایا کہ ان کی حکومت نے اس ایل این جی کی مزید درآمد اور کابینہ کی ایک کمیٹی برائے توانائی کے ایک فیصلے کے نفاذکے خلاف ایک اسٹے آرڈر حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس فیصلے کے تحت پنجاب میں فیڈرل پبلک سروس ترقیاتی پروگرام کے ذریعے ایل این جی کے تین پاور پلانٹس تعمیر کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ایل این جی کی درآمد کے معاملے کے ساتھ ساتھ اس کی ترسیل، تقسیم، صحت کی حفاظت، ماحولیاتی پروٹوکول، قیمت کا تعین اور محصولات کے نظام پر صوبائی حکومت کے ساتھ مشورہ نہیں کیا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے وزیراعظم اور متعلقہ وزیر کو لکھے گئے خطوط کا جواب نہیں دیا۔

ایل این جی کی درآمدات کے سلسلے میں اقتصادی رابطہ کمیٹی اور کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی کے فیصلے کو ’غیرآئینی‘ قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ حکومتِ سندھ کو یقین ہے کہ ایل این جی سے متعلق تمام معاملات پر غور اور فیصلے کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کی کونسل ایک مجاز فورم ہے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ گیس کی قلت ہورہی ہے، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ حکومتِ سندھ سے ایل این جی کی درآمد کے معاملے پر اس حقیقت کے باوجود مشورہ نہیں کیا گیا کہ 70 فیصد قدرتی گیس کی پیدوار سندھ سے حاصل کی جارہی ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ پورٹ قاسم پر ایل این جی کی پہلے کھیپ پہنچنے کا علم انہیں میڈیا کے ذریعے ہوا۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ سندھ میں پیدا ہونے والی گیس پنجاب کو فراہم کی جائے گی، جبکہ درآمدگی ایل این جی کو مقامی طور پر پیدا ہونے والی گیس کے ساتھ مکس کرنے کے بعد سندھ میں فروخت کیا جائے گا، جو ناصرف مہنگی ہوگی، بلکہ ناقص معیار کی حامل بھی ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس وقت تک ہمیں نہیں جانتے ہیں کہ اس گیس میں مقامی طور پر پیدا ہونے والی گیس کو ملانے کے بعد اس کی کیا قیمت مقرر کی گئی ہے۔ رپورٹوں کے مطابق یہ قیمت کابینہ کی کمیٹی کی جانب سے مقرر کی گئی تھی، اگر آئینی طور پر یہ مشترکہ مفادات کی کونسل کا خصوصی معاملہ ہے۔‘‘

سندھ ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا کہ صوبے میں پیدا ہونے والی قدرتی گیس کا استعمال صوبے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کیا جانا چاہیے اور اسے ملکی ضروریات پر ترجیح دینی چاہیے۔ اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ’’یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سندھ میں پیدا ہونے والی گیس کو سندھ میں استعمال کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔ ہم اپنے عوام سمیت کسی کے ساتھ بھی ناانصافی نہیں چاہتے، اور ایل این جی کو انہی علاقوں میں تقسیم کیا جائے، جن کے لیے یہ درآمد کی گئی ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہم اس مسئلے پر وفاقی حکومت کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتے، لیکن اسی کے ساتھ ہم دوسروں کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے عوام کا حق ہڑپ کرجائیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ درآمدی ایل این جی کے مقابلے میں خیرپور اور دادو کی گیس فیلڈ سے پیدا ہونے والی قدرتی گیس کہیں زیادہ معیاری ہے، اور یہی وجہ ہے کہ سندھ کی گیس پنجاب کو فراہم کرنا اور درآمدی ایل این جی کو سندھ کے لیے چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔

صوبائی وزیرِخزانہ نے کہا کہ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت مشترکہ مفادات کی کونسل سہ ماہی بنیاد پر اجلاس منعقد کرنا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے پچھلے دو سالوں کے دوران صرف تین اجلاس ہی منعقد کیے گئے تھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Shah Mar 28, 2015 12:02pm
Bhai ye sari LNG sirf or sirf Punjab kay lye he hay