داعش سے بیعت کے خلاف مقدمہ درج کرنے میں ہچکچاہٹ

30 مارچ 2015
اسلام آباد کی لال مسجد کے باہر تعینات رینجرز کا ایک اہلکار۔ —. فائل فوٹو آئی این پی
اسلام آباد کی لال مسجد کے باہر تعینات رینجرز کا ایک اہلکار۔ —. فائل فوٹو آئی این پی

اسلام آباد: وزارتِ داخلہ کے حکام اور پولیس افسران نے ڈان کو بتایا کہ عربی نام داعش سے معروف خودساختہ اسلامک اسٹیٹ عسکریت پسند گروپ کو دعوت دینے اور ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزام پر شہداء فاؤنڈیشن اور جامعہ حفصہ کی طالبات کے خلاف ایک مقدمہ درج کرنے سے گریزاں ہے۔

واضح رہے کہ یہ دعوت انہوں نے آپریشن سائلنس کا بدلہ لینے کے لیے دی تھی، جو لال مسجد کے خلاف 2007ء میں شروع کیا گیا تھا۔

دسمبر میں شہداء فاؤنڈیشن نے ایک پریس ریلیز اور ایک وڈیو پیغام جاری کیا تھا، جس میں داعش کے سربراہ کو پاکستان آنے اور اپنے بھائیوں کی ہلاکتوں کا بدلہ لینے کی دعوت دی گئی تھی۔

یہ پریس ریلیز اور وڈیو پیغام عوام کے سامنے آنے کے بعد سٹی پولیس کے سپریٹنڈنٹ رضوان عمر گوندل نے ایک رپورٹ تیار کرکے مزید قانونی کارروائی کے لیے انسپکٹر جنرل آف پولیس طاہر عالم خان کو ارسال کردی تھی۔

بعد میں اس رپورٹ کو پولیس کے پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس قانونی رائے کے لیے بھیج دیا گیا تھا، جس نے رپورٹ دی کہ اس وڈیو میں طالبات کی جانب سے استعمال کیے گئے الفاظ اور پریس ریلیز کا مواد پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 121، 121اے، 505(1)بی اور 505(2) کے تحت جرم ہے۔

پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 121 اور 121اے پاکستان کے خلاف ’جنگ چھیڑنے‘ کے جرم سے متعلق ہے۔ پولیس کے محکمے کو جمع کرائی گئی قانونی رائے کے مطابق ’جنگ چھیڑنے کا تاثر‘ کوڈ یا ایکٹ 1897ء کی عمومی شقوں واضح نہیں کیا گیا ہے، اور اسی وجہ سے اس کے عام لغوی معنی ’’جنگ کی طرف لے جانے والے‘ سمجھا جائے گا۔

پولیس کے پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ نے بھی مشورہ دیا کہ چونکہ یہ معاملہ ملک کی خودمختاری سے متعلق ہے، اس لیے یہ مقدمہ مزید کارروائی سے پہلے قانونی مشورے کے لیے مناسب فورم کو بھیجا جانا چاہیے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس کے بعد اس قانونی رائے کو وزارتِ داخلہ میں ان سفارشات کے ساتھ بھیج دیا گیا کہ پاکستان پینل کوڈ کی مجوزہ شقوں کے تحت ایک مقدمہ درج کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس مقدمے سے متعلق تحریر ہدایت کا اب تک انتظار ہے۔

وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق ’’پولیس افسران نے ایک سینئر حکومتی عہدے دار کو چند ملاقاتوں میں اس حوالے سے یاد دلایا تھا، لیکن ان سے جواب کے لیے انتظار کرنے کو کہا گیا۔ اب جبکہ اس سینئر عہدے دار کو اس معاملے کے بارے میں یاد دلایا گیا تو انہوں نے بغیر کسی وجہ کے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔‘‘

اہلکار نے بتایا کہ آخری مرتبہ جب یہ معاملے مذکورہ عہدے دار کے سامنے پیش کیا گیا، تو انہوں نے جواب دیا ’’حکومت ملک میں داعش کی موجودگی کو دوٹوک انداز میں مسترد کرچکی ہے، اور حکومت اپنے اس انکار پر سختی اور مضبوطی سے قائم ہے۔‘‘

انہوں نے مذکورہ عہدے دار کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’داعش کی قیادت کے ساتھ بیعت کرنے والے حمایتیوں اور پیروکاروں کے خلاف قانونی کارروائی سے خوف پھیل جائے گا اور اس معاملے کا غیرضروری طور پر تذکرہ شروع ہوجائے گا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’ایسے لوگ جو داعش کی حمایت کرتے ہیں یا اس سے متعلق لٹریچر تقسیم کرتے ہیں یا اس کی حمایت میں وال چاکنگ کرتے ہیں، انہیں ابھی گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے، اس لیے کہ اس طرح عوام میں صرف خوف پھیلے گا۔‘‘

ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ ڈان کو بتایا کہ ’’پولیس نے جنوری کے پہلے ہفتے میں اپنا کام کردیا تھا، لیکن اعلیٰ سطح سے اس معاملے پر مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔‘‘

وزراتِ داخلہ کی جانب سے میڈیا کے ساتھ بات کرنے کا اختیار رکھنے والے سرفراز حسین نے اس بات سے انکار کیا کہ وزارت کی جانب سے اس مقدمے کے حوالے سے ایسی کوئی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔

اسی وزارت کے ایک اور اہلکار عدیل ستار نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں