سندھ میں 76 فیصد کاشتکار خاندان بے زمین

30 مارچ 2015
۔ —. فائل فوٹو اے پی پی
۔ —. فائل فوٹو اے پی پی

کراچی: دیہاتوں میں لاوارث بنیادی ڈھانچے، مٹی اور بھوسے کے گھروں، کچی سڑکوں، غیرصحتمند پانی کی فراہمی، کچرے کے ڈھیر، سیوریج کے تالابوں اور تعلیم و صحت کی غیرمعیاری سہولیات سے سندھ اور بلوچستان کی کاشتکار برادری بُری طرح گھری ہوئی ہے۔

2010ء کے سیلاب میں بہہ جانے والے بہت سے دیہاتوں کو مستقبل کے سیلابوں سے دیہاتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے نکاسی آب کے ساتھ بلندزمین پر تعمیر نو کی منصوبہ بندی کے مواقع پیش کیے گئے تھے۔

تاہم جاگیرداروں اور قبائلی قیادت نے دیہاتوں کو نئی جگہ منتقل کرنے کی مخالفت کی، اس لیے کہ وہ اس طرح ان کی افرادی قوت، ووٹ بینک اور سب سے زیادہ اپنے قرضوں پر کنٹرول سے محروم ہوجائیں گے۔

یہ کچھ اہم نکات ہیں، جن پر ایک حالیہ تحقیق میں روشنی ڈالی گئی ہے، اس تحقیق میں سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں ابھرتے ہوئے زمین پیٹرن اور دیہی معاشے میں اقتدار کی حرکیات پر اس تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اس ریسرچ میں آمدنی، خوراک کی کھپت اور رہائش کے معیار، سیلاب کے اثرات، قرضوں، جاگیردار طبقے کے مختلف گروہوں اور غیرجاگیردار طبقے میں خواتین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک میں فرق کو بھی نوٹ کیا گیا ہے۔

پاکستان میں زمین پر قبضے کے نظام کا خاکہ، کے زیرِعنوان اس رپورٹ کے مصنف ڈاکٹر قیصر بنگالی ہیں، جن کی قیادت میں بلال احمد، نوبہار وسّان، حرا حبیب، پرویز احمد جامڑو اور نیّر صدیقی پر مشتمل ریسرچ ٹیم نے یہ رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کی جانب سے شایع کیا گیا ہے۔

اس مطالعے کا تصور 2011ء کی آخری سہ ماہی کے دوران تیار ہوا تھا جبکہ اس کے لیے فیلڈ سروے 2012ء کی جنوری سے جولائی کے درمیان کیا گیا، جس میں چاروں صوبوں میں سیلاب سے متاثرہ آٹھ اضلاع کا احاطہ کیا گیا۔

تاہم سیکیورٹی کی وجوہات کی بنا پر خیبرپختونخوا کے اضلاع میں اس سروے کا انعقاد نہیں کیا جاسکا۔ سندھ میں دادو، شکارپور اور ٹھٹھہ، بلوچستان میں جعفرآباد اور پنجاب میں مظفرگڑھ اور رحیم یارخان کے اضلاع میں سروے کیا گیا۔

اس رپورٹ کے مطابق کراچی سے آگے سندھ میں جاگیردارنہ اور قبائلی اقدار غالب ہیں۔ دیہی سندھ میں جاگیرداروں کے کردار کی حقیقت کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کاشتکاری سے منسلک تین چوتھائی دیہی باشندے کرائے دار ہیں اور بڑے جاگیرداروں کی زمینوں پر مزارع کے طور پر کام کرتے ہیں۔

بالائی سندھ میں یہ صورتحال کہیں زیادہ ہے، مثال کے طور پر جہاں شکارپور میں کرائے دار خاندانوں کی تعداد 84 فیصد ہے۔

جبکہ صوبے میں قبائلی نوعیت اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ سماجی تعلقات، اقتصادی فیصلے اور سیاسی اتحاد قبائلی اور ذات کی وابستگی سے منسلک ہیں۔

اثاثوں میں عدم مساوات شدید ہے۔ جبکہ بڑے کاشتکاروں کے مٹھی بھر خاندان ہزاروں ایکڑ کے مالک ہیں۔ دوسری جانب ہزاروں چھوٹے کاشتکاروں کے خاندان پانچ ایکڑز سے بھی کم زمینوں کی ملکیت رکھتے ہیں۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خاص طور پر 54 فیصد چھوٹے کاشتکار پانچ ایکڑ سے بھی کم اراضی کے مالک ہیں، اور چالیس فیصد خاندان پانچ ایکڑ سے بھی کم اراضی پر بطور کرائے دار کاشت کررہے ہیں۔

چنانچہ حصولِ معاش کے اس طرز کی صورتحال نے ان کی زندگی کو بہت مشکل بنادیا ہے۔

رپورٹ میں مزید نشاندہی کی گئی ہے کہ سندھ میں 76 فیصد دیہی خاندان بے زمین ہیں اور بڑے جاگیرداروں کی زمینوں پر بطور کرائے دار کام کرتے ہیں۔

فیلڈ کی تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ زمینی ملکیت چند بڑے خاندانوں تک محدود ہے، اور 50 سے 149 ایکڑ سائز کے بہت سے کھیت دراصل بالائی سطح کے خاندانوں کی نچلی سطح پر آنے والے خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ درحقیقت ان خاندانوں کے کھیتوں کے اوسط سائز ملکیت اور کنٹرول کے لحاظ سے اندازاً تین ہزار ایکڑز سے دس ہزار ایکڑز کے درمیان ہیں۔

گھاس پھوس کی رہائشگاہوں کی تعداد سندھ میں سب سے زیادہ 71 فیصد اور سب سے کم جنوبی پنجاب میں 32 فیصد ہے۔


خوف و تشدد:


رپورٹ کا کہنا ہے کہ خوف اور تشدد صوبے میں تقریباً ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔بالائی سندھ میں قبائلی رہنماؤں نے اپنی ذاتی فوج تیار کررکھی ہے، اور باقاعدہ جنگ، سرکاری زمینوں (عام طور پر جنگلات) پر قبضے، حریف قبیلوں کی زمینوں پر قبضے، اغوا برائے تاوان اور اس طرح کی دیگر وارداتوں میں مصروف ہیں۔

جرائم پیشہ عناصر نے ریاست کی ختم ہوتی رٹ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے خود اپنی دہشت کی حدود قائم کرلی ہیں۔

رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ’’قبائلی لوگ سرداروں اور وڈیروں کے تحت رہنے پر مجبور ہیں، اور بدلے میں ان کے ظلم و ستم کے شکار ہیں۔ انہیں رہنے کے لیے جاگیرداروں کے نام رجسٹرڈ سرکاری زمینیں کرائے پر دی گئی ہیں یا پھر وہ جاگیرداروں کی زمینوں پر رہتے ہیں، جن کے سرپر کسی بھی وقت بے دخلی کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔‘‘

اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ طویل عرصے سے جاری ان کی غلامی کی حالت نے مجموعی طور پر عدم مساوات اور وسیع پیمانے پر غربت کی صورتحال پیدا کی ہے۔

خاص طور پر ٹھٹھہ میں دیہی باشندوں کی صحت اور اقتصادی حالت پر ایک تبصرے میں کہا گیا کہ لوگ بھوک کو مارنے اور پیسے بچانے کے لیے گٹکا اور چائے کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔

دیہی سندھ کے ساتھ ساتھ بلوچستان کا ڈویژن نصیرآباد جاگیردارانہ اقدار میں جکڑا ہوا ہے، جہاں 70 سے 85 فیصد دیہی مزدور بطور کرائے دار مزراع کی بنیاد پر بڑے جاگیرداروں کی زمینوں پر کام کررہے ہیں۔

سندھ اور بلوچستان کے دیہی معاشرے کا سیاسی و سماجی ڈھانچہ صدیوں پرانا ہے اور یا بہت کم تبدیل ہوا ہے۔ دو تہائی سے زیادہ آبادی مسلسل دیہی علاقوں میں مقیم ہے اور ثانوی شہروں میں ترقی کی شرح انتہائی پست ہے۔

ثانوی شہری علاقوں میں روزگار اور تعلیمی مواقع کی کمی اور شہری خدمات کا ناقص معیار دیہی آبادی کو جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کی مضبوط گرفت سے باہر نکالنے میں ناکام رہا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Sharminda Mar 30, 2015 01:30pm
Sindh Government represents these poor people or their masters? This is the true & ugly face of democracy.