ماضی کی گزرگاہیں، لاہور کا اصل تاریخی ورثہ

ماضی کی گزرگاہیں، لاہور کا اصل تاریخی ورثہ

[سعدیہ امین]

لاہور شہر برصغیر کے قدیم ترین علاقوں میں سے ایک ہے اور یہ ہمیشہ سے اہم تجارتی گزر گاہ اور ثقافت کا مرکز رہا ہے جس کا ماضی بہت رنگین جبکہ یہاں کی تعمیرات پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں منفرد ہیں۔

اندرون لاہور جسے پرانا لاہور بھی کہا جاتا ہے میں مغلیہ دورِ حکومت کے دوران دشمن کے حملوں سے بچاﺅ کے لیے فصیل یا دیوار تعمیر کی گئی تھی جس میں بارہ دروازے بنائے گئے تھے جن میں سے کچھ تو وقت کی رفتار کا ساتھ نہ دے پانے کے باعث منہدم ہوگئے تاہم بیشتر ابھی بھی موجود ہیں اور اس شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے ہیں۔

موچی دروازہ

بشکریہ دوست پاکستان
بشکریہ دوست پاکستان

موچی دروازہ لاہور کے دروازوں میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، جس کا اصل نام تو بادشاہ اکبر کے دور کے ایک محافظ پنڈت موتی رام پر موتی دروازہ رکھا گیا تھا تاہم نجیت سنگھ کے دورِ حکومت میں یہ نام بدل کر پہلے مورچی اور پھر موچی مشہور ہوگیا اور اب اسے اسی نام سے جانا جاتا ہے۔

شہر کے قدیم علاقوں میں سے ایک ہونے کے باعث یہاں رونق کافی دیکھنے میں آتی ہے اور ماضی میں یہ سیاسی جلسوں کی وجہ سے بھی پورے ملک میں جانا جاتا تھا جہاں کافی یادگار جلسے بھی منعقد ہوئے، اسی طرح یہاں مغل دور کی چند مشہور حویلیاں بھی موجود ہیں جن میں مبارک حویلی، نثار حویلی اور لال حویلی قابل ذکر ہیں۔

موچی دروازے کا علاقہ قدیم دور سے ثقافت اور صنعت و حرفت کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کی تاریخی حویلیاں، کھانے، محلے اور بازار قدیم ادوار میں اس علاقے کی خوشحالی کی گواہی دیتے ہیں۔

لوہاری دروازہ

بشکریہ وکی میڈیا
بشکریہ وکی میڈیا

اکبر کے عہد میں تعمیر کردہ شہر کی دیوار کا سب سے پرانا دروازہ لوہاری کہلاتا تھا، جس کا اصل نام درحقیقت لاہور دروازہ تھا جو بگڑ کر لوہاری ہوگیا۔ اس دروازے کا رخ اس زمانے کے مرکزی علاقے سمجھے جانے والے اچھرہ کی جانب ہونے کی وجہ سے لاہور دروازہ رکھا گیا تھا، برصغیر کا پہلا مسلم حکمران قطب الدین ایبک اس دروازے کے ساتھ ہی محو خاک ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جب محمود غزنوی کے عہد میں ملک ایاز لاہور کا حکمران تھا تو اس نے اس زمانے میں قصبے کی شکل میں واقع لاہور کو دوبارہ تعمیر کرایا جس کے دوران شہر کی آبادی اسی دروازے کے ارگرد کے علاقے میں مقیم رہی۔

برطانوی عہد میں لاہور کے کئی دروازوں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تاہم لوہاری واحد دروازہ تھا جو اپنی اصل شکل میں برقرار رہا اور اب یہ شہر کا ایک مصروف ترین کاروباری علاقہ سمجھا جاتا ہے جہاں اکثر پیدل چلنا بھی آسان ثابت نہیں ہوتا جبکہ اس کے ساتھ ہی لاہور کا مصروف ترین انار کلی بازار ہے۔

شاہ عالمی دروازہ

بشکریہ ایکسپریس ٹریبیون
بشکریہ ایکسپریس ٹریبیون

شاہ عالم سے بگڑ کر شاہ عالمی کے نام سے مشہور ہوجانے والا یہ دروازہ لاہور کی مصروف ترین اور مالیاتی لحاظ سے بہت معروف مارکیٹ کے قریب واقع تھا، تاہم زمانے کی دستبرد کے نتیجے میں یہ منہدل ہوچکا ہے۔

اس دروازے کا نام اورنگزیب عالمگیر کے بیٹے شاہ عالم پر رکھا گیا تھا جو کہ پنجاب میں اپنی سخاوت کی بناءپر بہت معروف تھا، جبکہ اس کا پرانا نام بھیروالا دروازہ تھا، برصغیر کی تقسیم کے دوران اسے جلا کر خاک کردیا گیا اور اب صرف اس کا نام ہی باقی رہ گیا ہے۔

جس علاقے میں یہ دروازہ واقع ہے وہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہم ہے اور یہاں کئی یادگاریں، حویلیاں اور قدیم بازار واقع ہیں، جن میں رنگ محل، سوہا (صرافہ) بازار، کناری بازار وغیرہ قابل ذکر ہیں جبکہ ایشیاء کی نمبر ون کلاتھ مارکیٹ اعظم کلاتھ مارکیٹ بھی اسی علاقے میں واقع ہے، اسی طرح سنہری مسجد اور اونچی مسجد جیسی تاریخی مساجد بھی اسی دروازے کے پاس واقع ہیں۔

کشمیری دروازہ

بشکریہ وکی میڈیا
بشکریہ وکی میڈیا

چونکہ اس دروازے کا رخ وادیٔ کشمیر کی جانب ہے تو اسی لئے اسے کشمیری دروازے کا نام دیا گیا، اس دروازے کے اندر کشمیری بازار کے نام سے ایک مشہور مارکیٹ موجود ہے جبکہ تنگ گلیوں میں بھی متعدد مارکیٹیں موجود ہیں۔

اسی طرح یہاں سے ایک سڑک کے ذریعے تاریخی وزیر خان مسجد جایا جا سکتا ہے جبکہ ایک دوسری سڑک اعظم کلاتھ مارکیٹ تک لے جاتی ہے۔ اس تاریخی دروازے کی موجودہ حالت کافی خراب ہے اور جگہ جگہ سیاسی جماعتوں کے بینرز اور اشتہاری سائنز نے مغل عہد کے خطاطی کے شاہکار نمونوں کو چھپا کر رکھ دیا ہے۔

دہلی دروازہ

بشکریہ وکی میڈیا
بشکریہ وکی میڈیا

لاہور کے مشہور ترین دروازوں میں سے ایک دہلی دروازہ مغل بادشاہ اکبر نے تعمیر کرایا تھا، یہ شہر کی فصیل کے مشرق میں واقع ہے اور اس سے ملحق ہی کشمیری دروازہ ہے۔ چونکہ اس دروازے کا رخ دہلی کی جانب تھا اسی لئے اس کا نام دہلی دروازہ ہی رکھ دیا گیا، زمانہ قدیم میں یہ لاہور کا مصروف ترین علاقہ سمجھا جاتا تھا جبکہ اس کے بائیں جانب انتہائی خوبصورت شاہی حمام موجود ہے جو دیکھنے والوں کو مسحور کر کے رکھ دیتا ہے۔

دروازے کے اندر متعدد تاریخی عمارات، پرانی گلیاں اور لنڈا بازار موجود ہیں، تاریخی وزیر خان مسجد بھی اسی دروازے کے اندر موجود ہے۔ یہاں موجود پرانی حویلیاں دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی ہیں جبکہ یہاں ایک اہم ہندو یادگار شوالہ بابا بخار گرو بھی موجود ہے۔

اکبری دروازہ

بشکریہ لاہور نامہ
بشکریہ لاہور نامہ

شہر کی دیوار کی مشرقی سمت میں واقع اکبر دروازے کا نام مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے نام پر رکھا گیا۔ اگرچہ برطانوی عہد میں اس کی دوبارہ تعمیر نو کی گئی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ اب صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ یہاں لاہور کی سب سے بڑی ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹ اکبری منڈی واقع ہے جہاں ہر قسم کے اجناس کی تجارت ہوتی ہے۔

بھاٹی دروازہ

بشکریہ وکی میڈیا
بشکریہ وکی میڈیا

کہا جاتا ہے کہ جب محمود غزنوی نے راجہ جے پال کو شکست دی تو یہاں موجود دروازے کو راجپوت قبیلے بھاٹ یا بھٹی کا نام دیا گیا، جسے مغل بادشاہ اکبر نے اپنے عہد میں دوبارہ تعمیر کرایا۔ یہ شہر کی دیوار کے مغربی سمت میں واقع ہے اور یہ اپنے مخصوص لوہاری کھانوں کی بناء پر جانا جاتا ہے اور یہاں چوبیس گھنٹے چٹ پٹے کھانوں کے شوقین افراد کی بھر مار رہتی ہے۔

بھاٹی گیٹ کے قریب ہی ایک میوزیم واقع ہے جہاں ہندوستان کی مختلف بادشاہتوں کے عہد کی یادگاریں رکھی گئی ہیں جبکہ بازار حکیماں جیسی تاریخی مارکیٹ بھی اس دروازے کے ساتھ موجود ہے جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ بازار حکیموں کے لیے مخصوص ہے۔

مگر اس دروازے کی ایک خاص اہمیت یہاں شاعر مشرق علامہ اقبال کی دوران گریجویشن رہائش ہے، بازار حکیماں میں جس چھوٹی سی جگہ پر بیٹھ کر علامہ اقبال اپنی پڑھائی اور ساتھیوں سے ملاقاتیں کرتے تھے وہ بدستور موجود ہے۔ یہ دروازہ پہلوانوں کی وجہ سے بھی معروف ہے جنھوں نے یہاں سے نکل کر برصغیر میں کافی دھوم مچائی۔

مستی گیٹ

بشکریہ رضا نور، فلیکر فوٹو
بشکریہ رضا نور، فلیکر فوٹو

شاہی قلعے کی پشت میں واقع مستی گیٹ کا اصل نام مسجدی دروازہ تھا، جو بگڑ کر مستی ہوگیا۔ بادشاہ اکبر کی والدہ مریم میخانی کے نام سے منسوب مسجد اس دروازے میں واقع ہے تاہم کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس گیٹ کا نام یہاں متعین ایک محافظ مستی بلوچ کے نام پر رکھا گیا۔ لوہاری اور بھاٹی کی طرح یہ علاقہ بھی اپنے بہترین کھانوں اور دودھ کی دکانوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے، خاص طور پر ربڑی والا دودھ اور قلفی تو سیاحوں کی جان سمجھا جاتا ہے جن کی دکانوں پر چوبیس گھنٹے رش رہتا ہے۔

ٹکسالی گیٹ

بشکریہ وکی میڈیا
بشکریہ وکی میڈیا

ٹکسالی گیٹ کا نام یہاں سکے ڈھالنے کے لیے موجود ٹکسال کی وجہ سے پڑا، تاہم آج یہ ٹکسال اور دروازہ دونوں ہی منہدم ہوچکے ہیں۔ مگر ابھی بھی یہ جگہ کھانے پینے کے شوقین لاہوریوں کے لیے پسندید مقام ہے جہاں پھجے کے پائے اور کچھ حلوہ پوری کی مشہور دکانیں موجود ہیں۔ یہاں بیشتر افراد شیخو پڑیاں بازار جانے کے لیے آتے ہیں جو کھسہ اور پشاوری چپلوں کا معروف بازار ہے۔ اسی طرح پانی والا تالاب اور گوردوارہ لال کھوہ بھی اسی دروازے کے قریب واقع ہیں۔

روشنائی دروازہ

جنوبی سمت میں واقع یہ دروازہ شاہی قلعے اور بادشاہی مسجد کے درمیان واقع ہے۔ یہ دروازہ دوسرے مغلیہ دور میں تعمیر شدہ دروازوں سے اونچا اور چوڑا ہے۔ عالمگیری دروازے کے بعد مغلیہ فوج میں شامل ہاتھیوں کا دستہ اسی دروازے سے شہر میں داخل ہوا کرتا تھا۔ اسی دروازے سے ملحق مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں حضوری باغ افغانستان کے شاہ شجاع سے مشہور کوہ نور ہیرا چھیننے کی خوشی میں تعمیر کیا گیا تھا۔

شام کے وقت اس دروازے کو روشن کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے ہی اسے روشنائی دروازے کا نام دیا گیا۔ شاعر مشرق علاقہ اقبال اور رنجیت سنگھ کی سمادھی بھی اس دروازے کے سامنے حضوری باغ میں موجود ہے اور اس سے ملحق ہی بدنام زمانہ شاہی محلہ بھی موجود ہے۔

خضری یا شیرانوالہ دروازہ

بشکریہ وکی میڈیا
بشکریہ وکی میڈیا

اسے پہلے خضری دروازے کا نام دیا گیا جس کی وجہ معروف بزرگ حضرت خواجہ خضر الیاس تھا جنھیں امیر البحر کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آبِ حیات دریافت کرنے میں کامایب رہے تھے تاہم مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں اس کا نام تبدیل ہوگیا اور یہ شیرانوالہ دروازہ معروف ہوگیا۔

اس دروازے کے اندر روایتی پرانی لاہوری طرز زندگی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے اور یہاں کے تنگ بازار میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی۔ اس دروازے کی موجودہ حالت انتہائی خستہ ہے اور اس کا پلستر اور رنگ مکمل طور پر غائب ہو چکا ہے، بل بورڈز اور اشتہاری بینرز کی مہربانی سے جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں جس کی وجہ سے ڈر ہے کہ کہیں یہ تاریخی ورثہ بھی منہدم نہ ہو جائے۔

زکی یا یکی دروازہ

بشکریہ بلال طیب
بشکریہ بلال طیب

مشرقی سمت میں واقع ذکی دروازہ کا نام ایک شہید صوفی زکی کے نام پر رکھا گیا۔

تاریخ میں رقم ہے کہ اس صوفی بزرگ نے شمال سے آنے والے تاتاری حملہ آوروں کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا تھا جس کے دوران اس کا سر کاٹ لیا گیا اور ان کا مزار اسی دروازے کے قریب موجود ہے۔

اس دروازے کے ارگرد متعدد حویلیاں اور مندر موجود ہیں جہاں اکثر سیاحوں کا رش رہتا ہے۔