یمن تنازع: پاکستان کے پاس کیا آپشن ہیں؟

31 مارچ 2015
دانشمندانہ اقدام یہ ہوگا کہ پاکستان یمن میں سعودی مداخلت کا حصہ نہ بنے۔ لیکن کیا پاکستان غیر جانبدار رہ پائے گا؟ — اے پی پی/فائل
دانشمندانہ اقدام یہ ہوگا کہ پاکستان یمن میں سعودی مداخلت کا حصہ نہ بنے۔ لیکن کیا پاکستان غیر جانبدار رہ پائے گا؟ — اے پی پی/فائل

یہ خدشات، کہ یمن کے تنازع میں پاکستان کی مداخلت ملک کی اپنی داخلی سلامتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے، درست ہیں۔ اس تنازع میں خود کو الجھانا معاشرے میں پہلے سے موجود فرقہ وارانہ دراڑوں کو مزید گہرا کرے گا، جبکہ فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑنے کے بھی امکانات ہیں۔

ملک میں عسکریت پسندی کا پپیچیدہ منظرنامہ داعش جیسی شدید انتہاپسند تنظیموں کے لیے خالی جگہ فراہم کر سکتا ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے، تو پاکستان کا ایک منطقی اور دانشمندانہ اقدام یہ ہوگا کہ وہ یمن کے تنازع سے دور رہے، اور اس میں پارٹی بننے سے گریز کرے۔ لیکن کیا پاکستان کے پاس یہ آپشن موجود بھی ہے؟ اگر ہاں، تو غیر جانبدار رہنے کی قیمت کیا ہوگی؟

پڑھیے: پاکستان یمن آپریشن کا حصہ نہ بنے، عمران خان

سعودیوں کا پاکستان کے ریاستی اداروں میں کافی گہرا اثر و رسوخ ہے، اور وہ عوام پر اثر انداز ہونے والے معاملات پر بھی اپنی گرفت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب ان تین ممالک میں سے ہے، جن کو مدِ نظر رکھ کر پاکستان کی خارجہ پالیسی بنائی جاتی ہے۔

سعودیوں کے مقابلے میں امریکا اور چین پاکستان میں کم رعایت و مراعات رکھتے ہیں، بھلے ہی پاکستان کے داخلی اور عسکری معاملات پر وہ بھی کافی رسوخ کے حامل ہیں۔ سعودی عرب نے کئی دفعہ پاکستان کے سول ملٹری تنازع اور دیگر سیاسی بحرانوں کے حل میں کردار ادا کیا ہے۔

یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان میں سعودی اثر و رسوخ کس طرح بڑھا ہے۔ بھلے ہی پاکستان نے تاریخی طور پر مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلق، خاص طور سعودی عرب اور ایران سے اپنے تعلق میں توازن رکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن جنرل ضیاء الحق کے حکومت سنبھالنے پر پاکستان کا ریاض کی طرف جھکاؤ بڑھنے لگا۔

لیکن پاکستان نے سعودی عرب سے اپنے گرم جوش تعلقات کے ساتھ ساتھ ایران سے تنازعات سے بچے رہنے کی کوشش بھی کی، لیکن دونوں ممالک سے تعلق میں توازن رکھنا ہمیشہ سے ہی مشکل کام رہا ہے۔

اس سہہ فریقی تعلق میں سفارتی اور اسٹریٹیجک توازن برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب نے نہ صرف کئی نازک مراحل پر پاکستان کو اقتصادی امداد فراہم کی، بلکہ کشمیر، افغانستان، اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر سفارتی مدد بھی جاری رکھی۔

انہوں نے پاکستان کی فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی اشرافیہ سے بھی اپنے تعلقات مضبوط بنائے، اس حد تک کہ اب وہ پاکستان کے داخلی معاملات پر گرفت پا چکے ہیں۔

دنیا کے دیگر مسلم ممالک کے ساتھ سعودی کس طرح کے دو طرفہ اور اسٹریٹیجک تعلقات رکھتے ہیں، اس معاملے میں سعودیوں کا مسلکی نقطہ نظر مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔

مزید پڑھیے: یمن بحران: پاکستان کا علاقائی قیادت سے رابطہ کا فیصلہ

پاکستان جیسے ممالک جو جمہوریت کی جانب گامزن ہیں، اور جہاں قومی سیاست اب بھی فرقہ واریت سے پاک ہے، وہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں پریشانیوں کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستانی سیاسی جماعتیں مختلف فرقہ وارانہ رجحانات رکھتی ہیں، اور طاقت میں آنے کے بعد سعودی عرب سے تعلقات کو مختلف نظروں سے دیکھتی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت اور اس کی قیادت کے بارے میں سعودیوں کے نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ انہوں نے پی پی پی کی 'شیعہ اور ایران دوست حکومت' کو تیل کی تاخیر سے ادائیگی کی سہولت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ پی پی پی کی حکومت کے دوران پاکستان کو تیل کی سپلائی کی کمی کے باعث اقتصادی بحران شدید ہو گیا تھا۔

اس وجہ سے پی پی پی حکومت کا تہران کی جانب جھکاؤ بڑھا۔ 2013 میں پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر دستخط سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے پاکستان کے ایران اور سعودی عرب سے تعلقات میں زمینی اقتصادی توازن قائم کرنے کی حکمتِ عملی تھی۔

ایران نے معاہدے کے مطابق اپنے حصے کی پائپ لائن پر کام مکمل کر لیا ہے، اور اگر پاکستان پائپ لائن کا اپنا حصہ مکمل کر لے، تو گیس کی فراہمی شروع ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ایران کا ماننا ہے کہ پاکستان سعودی اور امریکی دباؤ کی وجہ سے گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے میں دیر کر رہا ہے۔

فرقہ وارانہ اور دیگر معاملات کے علاوہ، پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ سعودیوں اور پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے درمیان اچھے تعلقات کی کئی وجوہات میں سے ایک ہے۔

گذشتہ سال کے آغاز میں سعودی عرب نے پاکستان کو جذبہ خیر سگالی کے تحت غیر مشروط طور پر 1.5 ارب ڈالر کا تحفہ دیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت مزید مالی امداد بھی حاصل کر سکتی ہے اگر وہ سعودی عرب کے مقاصد کو پورا کرتی رہے۔ لیکن حکومت کے لیے یہ آسان نہیں ہو گا کیونکہ عوامی جذبات پاکستان کی سعودی عرب کے دباؤ میں آ کر یمن میں مداخلت کے خلاف ہیں۔

کئی سیاسی لیڈر اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پاکستان کو ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں موجود کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، لیکن یمن میں حالیہ فوجی ایکشن نے اس کے امکانات گھٹا دیے ہیں۔

سعودی سفارتکاری اس وقت جارحانہ انداز میں ہے، اور وہ پاکستان سمیت اپنے کسی بھی قریبی حلیف کو مشرقِ وسطیٰ کے معاملے پر غیر جانبدار نہیں رہنے دیں گے۔

مزید پڑھیے: 'یمن کی صورتحال پر اے پی سی طلب کی جائے'

نہ صرف خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی)، بلکہ ترکی، امریکا، اور مغربی ممالک سمیت کئی افریقی اور ایشیائی ممالک سعودی عرب کی یمن مہم کی حمایت کر رہے ہیں۔

یہ اسلام آباد کے لیے فیصلے کی اہم گھڑی ہے۔ اس کو دستیاب آپشنز میں سے بہت ہی محتاط رہ کر انتخاب کرنا ہوگا، خاص طور پر تب جب غیر جانبداری کوئی آپشن نہیں ہے۔

غیر جانبدار رہنے کی اقتصادی اور اسٹریٹیجک قیمت زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن جانبدار بن کر پاکستان کے لیے کئی فرقہ وارانہ اور سکیورٹی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Saeed Khan Mar 31, 2015 07:36pm
Why iran is interfering in Arab issues .....If so than Pakistan too have right to help Saudi Arabia by all means.
naseeb sawati Apr 01, 2015 06:16am
Pakistan ko is moqy PR sales kerdar adda Karen chayy