غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے تباہ کن اثرات

01 اپريل 2015
یمن کے حوثی باغی سعودی عرب کے فضائی حملوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ — اے پی
یمن کے حوثی باغی سعودی عرب کے فضائی حملوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ — اے پی

اس وقت ہمارے سماجی مسائل میں سے ایک بنیادی اور اہم مسئلہ ’’فرقہ واریت‘‘ ہے۔ اس کے اسباب زیادہ تر سیاسی و سماجی نوعیت کے ہیں تاہم کچھ علمی نوعیت کے بھی ہیں۔ فرقہ واریت کے سماجی اثرات پورے سماج کو گھیر لیتے ہیں اور انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ یہ زہریلے اثرات ذہنوں اور دلوں میں نفرت کی آگ بھڑکاتے ہوئے قتل و غارت اور خانہ جنگی تک پہنچ جاتے ہیں، ایسی صورت حال میں ہر طرف سے زندگی کے آثار معدوم ہونے لگتے ہیں اور ہر طرف موت، تباہی، بربادی، خوف، دہشت، خون، لاشیں، اور آگ ہی نظر آنے لگتی ہے جس کی تازہ مثالیں مشرقِ وسطیٰ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

فرقہ واریت کی آگ ایک دفعہ بھڑک جائے، تو اس پر قابو پانے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ سمجھ دار قوم وہی ہے جو آگ بھڑکنے کے بعد اس پر پانی ڈالنے کے بجائے ایسے اقدامات کرے جس سے آگ بھڑکے ہی نہیں۔ جبکہ بے وقوف قوم وہ ہے جو اپنے ہی گھر میں لگی آگ پر پانی کے بجائے تیل چھڑکے، اور بے وقوف ترین قوم وہ ہے جس کے گھر میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور وہ بھڑکتے شعلوں کا ہی انکار کر ڈالے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں پیش آنے والے فسادات کو بعض عناصر اور ذرائع ابلاغ اس انداز میں رپورٹ اور بیان کرتے ہیں جیسے کہ وہ پاکستان میں، بلکہ ہمارے ہی شہر میں پیش آئے ہوں۔ ان فسادت کے بارے میں جاننا، ان کے اسباب کا جائزہ لینا، حل کے لیے تجاویز سامنے لانا، اور ان فسادات میں ظلم و تشدد کے شکار ہونے والوں سے ہمدردی کرنا مستحسن عمل ہیں، تاہم ان فسادات کو اس انداز میں پیش کرنا کہ جیسے وہ ظلم ایک مکتبہ فکر کا دوسرے مکتبہ فکر پر ہو، انتہائی بری بات ہے۔

شام و عراق، یمن اور مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگی کو ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر اس طرح بیان کیا جا رہا ہے کہ گویا وہاں مرنے والے سنی اور شیعہ مسلمانوں کو پاکستان کے سنی اور شیعہ مسلمانوں نے جا کر قتل کیا ہو۔

اسی طرح ایران اور سعودی عرب کی ریاستی پالیسی اور مختلف عسکریت پسند تنظیموں کے اقدامات اور ترجیحات کو اہل تشیع اور اہل سنت کا مذہب بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ان پالیسیوں اور ترجیحات کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے فسادات پر سارا غم و غصہ پاکستان میں نکالا جارہا ہے اور یہاں دونوں طرف سے تعصب کی آگ کو مزید بھڑکایا جا رہا ہے۔ اس نیک کام میں یہود و ہنود نہیں بلکہ ہمارے ہی ناداں دوست شامل ہیں۔

یہ عدل و انصاف اور عقل و شعور کے خلاف ہے کہ ظلم کرے کوئی اور اس کی سزا بھرے کوئی۔ اگر ہم نے پاکستان میں پر امن بقائے باہمی کی صورت حال کو بہتر بنانا ہے تو ہمیں کسی کی حمایت اور مفاد میں غلو کی حد تک نہیں جانا چاہیے اور اغیار کی مخالفت اور ردعمل میں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے بے گناہ لوگوں کے قتل و غارت کی راہ ہموار ہو، ورنہ مذہبی تعصبات میں ملبوس سیاسی مفادات کی یہ پرائی جنگ ہمیں بھی لے ڈوبے گی۔

اگر ہم نے وہاں کی خانہ جنگی کی آگ پر پانی کے بجائے تیل پھینکا تو یہ آگ ہمیں بھی راکھ کر سکتی ہے۔ اس خانہ جنگی سے بچنے اور اس سے باہر نکالنے میں ہماری مدد کے لیے نہ ایران آئے گا اور نہ سعودی عرب، اور نہ ہی ہماری پسندیدہ تنظیمیں پہنچیں گی۔

یہ بھی یاد رکھ لیا جائے کہ دوسروں سے بلاوجہ نفرت، تعصب اور ان پر ظلم و زیادتی کا جواب اور حساب اللہ تعالیٰ کے حضور ہم نے انفرادی طور پر دینا ہے۔ وہاں نہ سفارش چلے گی، نہ پیسہ اور نہ ہی دباؤ۔ کسی بھی سیاسی اور مذہبی مفاد کا بہانہ بھی اس کے سامنے نہیں چلے گا۔

پیٹرول پمپ پر ماجس جلانے سے احتیاط کرنے والو!

پوری قوم کو جلانے والی آگ پر پیٹرول پھینکنے سے بھی اجتناب کرو!!!

مذہبی فسادات کو بیان کرنے، اس پر تبصرہ کرنے، اور اپنا ردعمل دکھانے میں احتیاط، انصاف اور سمجھ داری سے کام لیجیے!

مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگی کو پاکستان میں در آمد کرنے سے احتیاط کیجیے اگر آپ پاکستان کے محب اور اپنے وطن کے محسن بننا چاہتے ہیں تو!

تبصرے (4) بند ہیں

Israr Muhammad Apr 02, 2015 01:18am
درست فرمایا موجودہ زمانے کی طاقتور میڈیا ہی ایسا کررہی ھے سوشل میڈیا پر تو سب کچھ ھوتا ھے اسکیلئے بھی کوئی حل نکالنا ھوگا اس پر تو بہت سے حضرات صحابہ کرام کو گالیاں بھی کھل کر دیتے ھیں لیکن ھمارے ملک کی ٹی وی میڈیا بھی بہت غیر زمہ داری کا مظاہرہ کررہی ھے تمام میڈیا کو اس سلسلے میں ایک مکمل ضابطہ اخلاق بنانا ھوگا جس پر لازمی عمل درامدھونا چاہئے پچھلے پی پی پی حکومت میں ایک ویڈیو افضل کوہستانی کے نام سے میڈیاپر چلی تھی جس پر اس وقت کی سپریم کورٹ نے بھی سوموٹو ایکشن لیا تھا جس کی وجہ سے وہ کیس بہت مشہور ھوگیا تھا لیکن اسکا انجام کیا ھوا تھا اسکا زکر اج تک کسی بھی میڈیا نے نہیں کیا ھے اس ویڈیو کی وجہ سے نا جانے کتنے نوجوان اپنی جان سے گئے ھیں افضل کوہستانی کے چار بھائی مارے جاچکے ھیں دوسری طرف سے بھی ھلاکتیں ھوئیں ھونگی لڑکیوں کاکیاحال کیا گیا ھوگا یہ نہیں معلوم لیکن اتنا ضرور معلوم کہ اسطرح کے واقعات میں عورت کا زندہ چھوڑنا ناممکن ھوتاھے پختون عورت کے معاملے میں بہت حساس ھوتے ھی. جب تک صلح نہیں ھوتی دشمنی چلتی ھےلیکن اس وقت فرزانہ باری اور میڈیا چینل کے غلط رپورٹنگ کا نتیجہ تھا
Nisar Apr 02, 2015 01:31am
Best article at the right time
MALIK Apr 02, 2015 01:31am
Very good article.
عبدالرؤف ریحان Apr 02, 2015 04:21pm
غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کو افواہ سازی کے ضمن میں ہی لیا جانا چاھیے اور افواہ سازی ایسا عمل ھے جس کی مذمت کی جانی چاھیے۔ اسلام میں افواہوں کے حوالے سے اہلِ اسلام کو باقاعدہ یہ حکم دیا گیا ھے يَا ايُّھا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَھالَۃ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ(حجرات - الآيۃ 6) یعنی (مومنو! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے ) لھذا موجودہ صورتِ حال میں ہر صاحبِ بصیرت کا فرض ھے کہ کوئی بھی ایسی بات بلا تحقیق آگے نہ بڑھائے جس سے فتنہ و فساد پھیلے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں بھت اچھی تحریر ہے اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ! آمین۔