خیرپور کے غیر دریافت شدہ عجائب

ہجوم میں سے کسی نے سوال اچھالا " پاکستان کی کون سی عمارت ہے جہاں آپ اس صورت میں رہنا پسند کریں گے جب کسی قسم کے لیے پیسوں کا خرچہ نہیں کرنا ہوگا؟"

کسی نے جواب دیا " خیرپور کا شیش محل"۔

" خیرپور ؟ خیرپور میرس؟"

یہ سب سن کر میری غنودگی ہوا ہوگئی۔

درحقیقت خیرپور میرس میں شیش محل موجود ہے جسے اپنے وقت کے حکمران میر فیض محمد تالپور نے تعمیر کرایا تھا اور جب مجھے ایک خاندانی تقریب کے لیے سکھر جانے کا موقع ملا تو میں نے فیصلہ کیا کہ وقت نکال کر شیش محل کو قریب سے دیکھوں گا۔

بچے شیش محل کے داخلی راستے پر چل رہے ہیں— فوٹو فاروق سومرو
بچے شیش محل کے داخلی راستے پر چل رہے ہیں— فوٹو فاروق سومرو

ہم سرما کی کہر آلود دوپہر کو گاڑی سے نکلے اور پہلے خیرپور میں روک کر اپنے گائیڈ کو لیا۔ خیر پور میرس اندرون سندھ کے دیگر شہری مراکز جیسا ہے جو پریشان کن توسیعی عمل سے گزر رہا ہے جس نے شہر کے تاریخی روپ کو متاثر کیا ہے حالانکہ ایک دور تھا جب اسے تالپور تاج کا ہیرا قرار دیا جاتا تھا، یہ سندھ کے بڑے اضلاع میں سے ایک ہے اور جغرافیائی اعتبار سے یہاں بھرپور تنوع دیکھا جاسکتا ہے۔

میر واپ یہاں کی زرخیر زمین کی آبیاری کرتا ہے جبکہ وسیع صحرا ہندوستان کی سرحد اور اس کے پیچھے پھیلا ہوا ہے۔ چونے یا چپسم کے ذخائر نے دونوں علاقوں کے درمیان ایک قدرتی حد بندی کردی ہے، یہاں کے آخری حکمران تالپور خاندان نے فنون لطیفہ کی سرپرستی کی تھی اور متعدد شاندار حویلیوں کو ضلع بھر میں تلاش کیا جاسکتا ہے جو کہ ایک دولت مند عہد کی کہانی بیان کرتی ہیں۔

ان یادگاروں کی فرسودہ حالت سندھ میں ریاستی امور کی غفلت کی یاد دہانی کراتی ہے۔

شہر کا مرکزی داخلی راستہ ایک فلائی اوور کی تعمیر کے باعث بند پڑا تھا جو کہ انتظامیہ کی ترقیاتی جھولی کا ایک نیا رجحان ہے۔ ہمیں ' گڑھی پل' کے قریب سے لمبا راستہ اختیار کرنا پڑا جو کہ میر واہ کے اوپر تعمیر کیا تھا اور یہاں سے شہر کا چکر بہت آہستگی سے لگتا ہے۔ میں یہاں سے کینال کے چمکتے پانی میں متعدد خالی سیوریج پمپس دیک سکتا تھا۔

یہ شاہراہ خم کھاتی ہوئی فیض محل کے قریب سے گزرتی ہے جو کہ خیر پور کے میر خاندان کی رہائشگاہ تھی، اس رہائشگاہ کی کبھی عظیم الشان دیواریں اپنی بلندی سے محروم ہوچکی ہے جس کی وجہ شاہراہ کا سطح زمین سے بلند ہونا ہے کیونکہ اسے بار بار تعمیر کیا گیا ہے۔

شہر میں سیاسی رہنماﺅں کے پوسٹرز بھرے پڑے ہیں مگر ان کے پاس فخر کرنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں۔ ہم نے گائیڈ کو مریم توپ کے قریب سے تلاش کیا جو کبھی ایک اہم یادگار تھی مگر اب گاڑیوں اور تجاوازت کے سمندر میں کھو چکی ہے۔ ایک بائی پاس خیرپور کے ارگرد تعمیر کیا گیا ہے جس کے ذریعے شہر کے نواح کا سفر کیا جاسکتا ہے مگر شہر ابھی بھی کوٹ ڈیجی سے پرانی شاہراہ کے ذریعے منسلک ہے۔

کوٹ ڈیجی تک ہمارا سفر کسی ہنگامے سے محروم رہا۔ قلعہ کوٹ ڈیجی ایک چٹان کے اوپر تعمیر کیا گیا تھا اور اسے دور دراز سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس قلعے سے ایک چھوٹی سی سڑک ہمیں ربی کی فصلوں سے لہلہاتے کھیتوں کی جانب لے گئی، جہاں میں نے وہاں کی شفاف فضاءمیں ریلیف کا ایک گہرا سانس لیا کیونکہ یہاں پہنچنا شہر کے بعد ایک خوش آئند تبدیلی لگ رہا تھا۔

یہ سڑک ایک لکڑی کے دروازے کے سامنے جاکر ختم ہوئی جو کہ بمشکل ہی دراندازوں کو دور رکھ سکتا ہے، سرخ اینٹوں کی دیوار گزرے وقت نے فرسودہ کردی ہے۔

شیش محل کا ایک دروازہ — فوٹو شامین خان
شیش محل کا ایک دروازہ — فوٹو شامین خان

ہم دروازے سے گزر کر اندر داخل ہوئے اور ایک پگڈنڈی پر پہنچ گئے جو کہ گھنے پرانے درختوں سے ڈھکی ہوئی تھی ، آپ ان درختوں کو شہر میں تلاش نہیں کرسکتے۔ ایک پرتجسس بچہ اچانک ہی نمودار ہوا اور پوچھنے لگا کہ ہم یہاں کیا کرنے آئے ہیں۔ یہ بچہ اس خاندان سے تعلق رکھتا تھا جو اس تنزلی کی شکار حویلی کا خیال رکھنے کے لیے یہاں موجود ہے۔

شیش محل کے نگران خاندان سے تعلق رکھنے والا بچہ حویلی کی جانب بھاگ رہا ہے— فوٹو فاروق سومرو
شیش محل کے نگران خاندان سے تعلق رکھنے والا بچہ حویلی کی جانب بھاگ رہا ہے— فوٹو فاروق سومرو
نگران خاندان کا بچہ شیش محل کے ایک دروازے کے سامنے کھڑا ہے— فوٹو فاروق سومرو
نگران خاندان کا بچہ شیش محل کے ایک دروازے کے سامنے کھڑا ہے— فوٹو فاروق سومرو

میں نے اس بچے کو بتایا کہ میں اس عمارت کو اندر سے دیکھنا چاہتا ہوں اور یہ سن کر وہ تیزی سے عمارت کی جانب بھاگ گیا، میں نے اس کا تعاقب کیا اور سائیڈ کے راستے سے عمارت میں داخل ہوگیا۔

راہداری کی زیبائش سانسیں روک دینے والی تھی کیونکہ یہاں کی دیواروں اور چھت رنگا رنگ نقوش سے سجی ہوئی تھیں۔ لکڑی کا کام ویسے تو بنیادی نوعیت کا تھا مگر پھر بھی اس سے شاہانہ انداز جھلک رہا تھا۔ ہم مرکزی ہال میں داخل ہوئے اور وہاں دیواروں و چھت پر خطاطی کا کام دیکھ کر دنگ رہ گئے۔

شیشے اور آئینے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو انتہائی ماہرانہ انداز سے ہاتھوں سے استعمال کرکے یہاں آویزاں کیا گیا ہے اور ممکنہ طور پر اسی چیز نے عمارت کو شیش محل کا نام دیا۔

شیش محل کا ایک منظر — فوٹو فاروق سومرو
شیش محل کا ایک منظر — فوٹو فاروق سومرو
شیش محل کی ہاتھوں سے تیار کی گئی خوبصورت سیلنگ — فوٹو فاروق سومرو
شیش محل کی ہاتھوں سے تیار کی گئی خوبصورت سیلنگ — فوٹو فاروق سومرو
شیش محل کا ایک خوبصورت نظارہ — فوٹو فاروق سومرو
شیش محل کا ایک خوبصورت نظارہ — فوٹو فاروق سومرو
شیش محل میں کیا گیا آئینوں کا کام— فوٹو فاروق سومرو
شیش محل میں کیا گیا آئینوں کا کام— فوٹو فاروق سومرو

ہم مرکزی ہال کے ارگرد گھومتے رہے، اس عمارت کو ہم آہنگ انداز سے تعمیر کیا گیا اور چھوٹے کمرے ہر طرف موجود ہیں۔ یہاں واش رومز کونوں میں تعمیر کیے گئے ہیں ایک بڑا باتھ ٹب ان میں سے ایک میں رکھا ہوا تھا۔

شیش محل کے مرکزی ہال کی جانب لے جانے والے دروازے — فوٹو شامین خان
شیش محل کے مرکزی ہال کی جانب لے جانے والے دروازے — فوٹو شامین خان
شیش محل کے دروازوں سے گزر کر آنے والی دھوپ کا دلکش نظارہ— فوٹو شامین خان
شیش محل کے دروازوں سے گزر کر آنے والی دھوپ کا دلکش نظارہ— فوٹو شامین خان
نگران خاندان کا ایک فرد شیش محل کے سامنے کھڑا ہے — فوٹو شامین خان
نگران خاندان کا ایک فرد شیش محل کے سامنے کھڑا ہے — فوٹو شامین خان

میں اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں تلاش نہیں کرسکا مگر ایک شخص کے مطابق اوپر جانے کا راستہ ٹوٹ چکا ہے۔ بعد ازاں کسی نے مجھے بتایا کہ مالکان عمارت کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کو اندر آنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ متعدد میڈیا چینلز اسے میوزک ویوڈیوز اور مقامی ڈراموں کی شوٹنگ کے لیے مثالی مقام سمجھتے ہیں۔

شیش محل کا مرکزی داخلی راستہ— فوٹو فاروق سومرو
شیش محل کا مرکزی داخلی راستہ— فوٹو فاروق سومرو
شیش محل کے باہر ایک بوڑھا شخص شیو کرتے ہوئے — فوٹو شامین خان
شیش محل کے باہر ایک بوڑھا شخص شیو کرتے ہوئے — فوٹو شامین خان
شیش محل کے باہر ایک خاتون کپڑے دھوتے ہوئے — فوٹو شامین خان
شیش محل کے باہر ایک خاتون کپڑے دھوتے ہوئے — فوٹو شامین خان

مہرانو

ہم وہاں سے باہر نکلے اور مہرانو کی جانب رخ کیا یہ مقام 1790 میں میر سہراب خان تالپور (تالپور سلطنگ کے بانی) نے تعمیر کروایا تھا۔

یہ ایک جنگل، زرعی زمین، جھیلوں اور صحراتی علاقے پر مشتمل مقام ہے، شکار سے پاک علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں جانوروں و نباتات کی متعدد اقسام دیکھی جاسکتی ہے۔ جب ہم گندم کے وسیع و عریض کھیتوں سے گزر رہے تھے تو میں نے سمبل کے متعدد درختوں کو سرخ و نارنجی پھولوں سے لدے ہوئے دیکھا۔

ہمارے میزبان ہمیں ایک مضبوط حصے کی جانب لے گئے جہاں ہم نے سینکڑوں سیاہ ہرنوں کو آزادی سے گھومتے ہوئے دیکھا، یہ ایک نظارہ تھا کیونکہ سندھ کے اس حصے میں ان دونوں جانوروں کا بے دردی سے شکار ہوتا ہے۔

نیک دل مالکان نے ان جانوروں کے تحفظ کا بیڑہ اٹھایا ہے جس کے لیے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہے تاہم مہرانو میں ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

اس کے بعد ہم نے کچھ دیر تک ایک چھوٹے سے گیسٹ ہاﺅس میں آرام کیا جو ایک ٹیلے کے اوپر تعمیر کیا گیا تھا، یہاں سے کیکر کے وسیع جنگل کا ایک نظارہ کیا جاسکتا ہے جبکہ مجھے بتایا گیا کہ قریب ہی ایک جھیل بھی ہے۔

ہم نے فوری طور پر اپنے سفر کا آغاز کیا جو کہ دل کش اور حقیقت سے ماورا لگ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم کسی ایسے جنگل میں داخل ہوگئے ہیں جو کسی بھی لمحے زندہ ہوسکتا ہے۔ ہمارے میزبان نے ہدایت کی کہ اپنے موبائل سائیلنٹ رکھیں کیونکہ ان کی آواز سے اس موسم میں یہاں آنے والی بطخیں ہوشیار ہوجائیں گی جو کہ جھیل کے ارگرد دیکھی جاسکتی ہیں۔

جھیل کے قریب ایک چھپنے کی جگہ تعمیر کی گئی ہے جو کہ ایلس ان ونڈرلینڈ کے خرگوش کا سوراخ لگتا ہے۔ ہم اس کے اندر داخل ہوئے اور اندھیرے میں ہاتھوں سے ٹٹولتے ہوئے راستہ تلاش کرنے لگے۔

اس جگہ پر ایک کپڑا لٹکا ہوا تھا اور ہم کپڑے کے اندر موجود سوراخوں سے ہی جھیل کی جھلکیاں دیکھ سکتے تھے اور ان ننھے سوراخوں سے نظر آنے والا ایک سلطنت سے کم قیمت نہیں تھا۔

سینکڑوں بطخیں ایک چھوٹی سی جھیل میں تیر رہی تھیں، میں نے اپنی زندگی میں کسی بھی جگہ اتنے زیادہ پرندے ایک ساتھ نہیں دیکھے تھے، ہم یہاں خاموشی سے کھڑے رہ کر اس نظارے کو اپنے جذب کرتے رہے۔

ہم نے ایک اور خفیہ جگہ پر تھوڑی دیر تک قیام کیا جہاں ہم نے جنگلی سوروﺅں کو آزادی سے گھومتے ہوئے دیکھا، یہ ایک بہت بڑا علاقہ ہے اور ایک گائیڈ ایسی آواز نکالنے لگا جسے لگتا تھا کہ یہ سور بخوبی پہچانتے ہیں اور وہ اچانک ہی ہمارے قریب آگئے۔

انہیں انسانی موجودگی کی کوئی پروا نہیں تھی اور وہ بخوشی وہ گندم ہڑپ کررہے تھے جو ہمارا گائیڈ ان کے سامنے ڈال رہا تھا۔

ہمارا کوٹ ڈیجی میں کام مکمل ہوچکا تھا مگر ہم جانتے تھے کہ خیرپور میں متاثر کرنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے مگر بدقسمتی سے یہ خزانے شعور کی کمی اور علاقے کو توجہ نہ دیئے جانے کے باعث تاریکی میں گم ہوتے چلے جارہے ہیں۔