جنوبی افریقہ کے اسسٹنٹ کوچ مائیک ہورن نے ٹیم میں نسل پرستی کی بنیاد پر کھلاڑیوں کھلائے جانے کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ورلڈ کپ سیمی فائنل کی ٹیم میں زبردستی تبدیلی کروائی گئی جو شکست کی وجہ بنی۔

مائیک ہورن نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ جنوبی افریقی ٹیم نے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں کوٹہ پورا کرنے کی وجہ سے اپنی ٹیم میں تبدیلی کی۔

کھلاڑیوں میں جیت کا جذبہ بیدار رکھنے اور انہیں ہردم متحرک رکھنے کے لیے مشہور مقرر ہورن 2011 میں جنوبی افریقی ٹیم مینجمنٹ کا حصہ بنے اور انہوں نے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں اپنی ٹیم کو پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

جنوبی افریقہ نے سری لنکا کو یکطرفہ مقابلے میں شکست سے دوچار کر کے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا تاہم تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب پروٹیز نے سیمی فائنل میں اپنی ٹیم میں تبدیلی کرتے ہوئے ان فارم کائل ایبٹ کی جگہ ورنن فلینڈر کو فائنل الیون میں موقع فراہم کیا۔

فلینڈر کی ٹیم میں سلیکشن سے مبینہ طور پر ایک بار پھر نسل پرستی کی بنیاد پر ٹیم میں کھلاڑیوں کی شمولیت کے پرانے ضابطے کو زندہ کردیا جس کو 2007 میں ختم کردیا گیا۔

’پلیئرز آف کلرز‘ کے نام سے مشہور نسل پرستی کے اس ضابطے کے تحت ٹیم میں کالے، ایشین یا دیگر مکس نسلوں کے چار کھلاڑیوں کو ٹیم کا حصہ بنایا جاتا تھا۔

جنوبی افریقہ کے سنڈے ٹائمز میں ورلڈ فائنل کے بعد چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق فلینڈر کی ٹیم میں سلیکشن براہ راست جنوبی افریقی بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ہارون لورگاٹ کی ہدایت پر کی گئی۔

تاہم لورگاٹ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے بکواس قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہماری ٹیم کے انتخاب میں نہ کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہ پہلے کی گئی اور نہ اب کی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ نیٹ ورک 24 نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ ہارون لورگاٹ نے ٹیم کے کوچ رسل ڈومنگو کو ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا اور نسل پرستی کی بنیاد پر ایک اور کھلاڑی کو ٹیم میں شامل کرنے پر زور دیا۔

تاہم ہورن نے شنگھائی میں لوریس ورلڈ اسپورٹ ایوارڈ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹیم کے انتخاب میں سیاسی مداخلت کی گئی جس سے ٹیم میں جیت کا جذبہ ختم ہو گیا۔

’اصل میں ہوا یہ تھا کہ جو ٹیم سری لنکا کے خلاف کھیلی تھی ہمیں وہی ٹیم سیمی فائنل میں بھی کھلانی تھی‘۔

’ہم کسی قسم کی سیاست میں نہیں پڑنا چاہتے تھے لیکن اس نے کردار ادا کیا‘۔

اس موقع پر انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی کھلاڑیوں میں جذبہ ابھارنے کے حوالے سے اپنے کام میں ناکام رہا کیونکہ میرا ماننا ہے کہ پروٹیز ورلڈ کپ جیت سکتے تھے۔

فلینڈر پول میچوں میں انجری کے سبب ورلڈ کپ سیمی فائنل سے قبل جنوبی افریقہ کے سات میں سے چار میچ نہیں کھیل سکے تھے۔

سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کو بارش سے متاثرہ میچ میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا جہاں فلینڈر نے آٹھ اوورز میں 52 رنز دیے تھے اور ان فٹ ہو کر فیلڈ سے باہر چلے گئے تھے۔

ورلڈ کپ سے جنوبی افریقہ واپسی پر ٹیم کے کوچ ڈومینگو نے سیمی فائنل میں ایبٹ کی جگہ فلینڈر کی ٹیم میں شمولیت کا دفاع کرتے ہوئے فلینڈر میچ سے قبل مکمل فٹ تھے۔

کائل ایبٹ نے ورلڈ کپ کے چار میچوں میں 14 کی شاندار اوسط سے نو وکٹیں حاصل کی تھیں۔

کوٹے کی بنیاد پر ٹیم کا انتخاب جنوبی افریقہ میں ہمیشہ موضوع بحث رہا ہے اور فلینڈر کے معاملہ اس وقت منظ ر عام پر آیا ہے جب جنوبی افریقہ نے ڈومیسٹک کرکٹ میں نسلی بنیادوں پر کوٹہ بڑھا دیا ہے۔

ڈومیسٹک فرنچائز ٹیموں کو اب کم از کم افریقی نژاد تین کالے کھلاڑیوں سمیت چھ ’پلیئرز آف کلرز‘ کھلانے پڑتے ہیں۔

سنڈے ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فلینڈر کی ٹیم میں شمولیت پر ٹیم کے کھلاڑی خاصے برہم تھے اور اسی مسئلے کی وجہ سے ایک موقع پر ڈی ویلیئرز نے میچ کھیلنے سے بھی انکار کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں