ٹوٹکوں میں علاج ڈھونڈتی قوم

19 اپريل 2015
مرض چاہے کوئی بھی ہو، ہم سب سے پہلے ٹوٹکوں، اور گھر میں پڑی رنگ برنگی دواؤں کا سہارا لیتے ہیں۔ — Creative Commons
مرض چاہے کوئی بھی ہو، ہم سب سے پہلے ٹوٹکوں، اور گھر میں پڑی رنگ برنگی دواؤں کا سہارا لیتے ہیں۔ — Creative Commons

دس سال پہلے ہماری ایک رشتے دار جگر کے کینسر سے 8 ماہ کی لڑائی کے بعد چل بسیں۔

جب ہم نے سنا تھا کہ ان کا کینسر تیسری اسٹیج پر ہے، تو یہ ایسا صدمہ تھا جسے ہم بیان نہیں کر سکتے۔ اگلے چند ماہ میں ان کا علاج چلتا رہا، لیکن یہ علاج جدید طبی معیارات کے بجائے غیر روایتی تھا۔ لیکن یہ ان لوگوں کے لیے کافی روایتی تھا جو علاج معالجے کے حوالے سے سنی سنائی باتوں پر یقین رکھتے ہیں، یا جنہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ایسے کسی بھی مرض کی صورت میں کہاں جانا چاہیے یا کیا کرنا چاہیے۔

ڈاکٹروں نے ہمیں بتا دیا تھا کہ جدید علاج کے ساتھ بھی ان کے زندہ بچ پانے کے بہت کم امکانات ہیں۔ لیکن وہ جس سہولتوں سے محروم جس دور دراز گاؤں میں رہتی تھیں، وہاں پر شہر کے بڑے ہسپتال میں جانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

جو جملہ سب سے زیادہ سننے میں آتا تھا، وہ یہ کہ 'میرے پیر جی کے پاس چلی جائیں، وہ انشاءاللہ آپ کو بالکل ٹھیک کردیں گے۔'

اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔

پڑھیے: معذوری کی وجہ: ڈاکٹروں کی غفلت

جب پیروں سے کام نہیں بنا، تو انہوں نے حکیموں اور ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کے پاس جان شروع کر دیا۔ ان کے شربتوں اور میٹھی گولیوں نے بھی 'مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی' کہ مصداق کام دکھایا۔

تو آخر کار جب تکلیف برداشت سے باہر ہوگئی، تو وہ شوکت خانم ہسپتال لاہور آئیں، لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی، اور کچھ ہی ہفتوں بعد وہ چل بسیں۔

مرض کی تشخیص کے بعد میری آنٹی کا رویہ گیر معمولی نہیں تھا۔ اور نہ ہی ان کے چاہنے والوں کا رویہ غیر معمولی تھا، جو انہیں ماڈرن دوائیوں کے بجائے ہر دوسری چیز آزمانے کے مشورے دیتے رہے۔ لیکن یہ صرف کم علمی کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ اس وجہ سے بھی تھا کہ درست علاج تک رسائی نہ تھی، اور سرکاری ہسپتالوں کے تھکے ماندے ڈاکٹروں کی تشخیص اور تجاویز ہمیشہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتیں۔

مرض کی خود تشخیص کرنا اور خود ہی دوائیں تجویز کرنا ہماری قومی عادت بن چکی ہے۔ اور اگر دیکھا جائے کہ کس طرح ہمارے ملک کی ایک بڑی آبادی صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، یہ بات آسانی سے سمجھ آسکتی ہے۔

شہروں میں بھی، جہاں پرائیوٹ کلینکس، ہسپتالوں، اور لیبارٹریوں کی کمی نہیں، وہاں پر بھی ہم بیماری کی صورت میں ہمیشہ سب سے پہلے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے۔ اور اس کی وجہ سادہ سی ہے: نانی اور دادی کے ٹوٹکے سردی نزلہ زکام وغیرہ کے لیے مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔

ہم جو بھی دوائیں لیتے ہیں، ان کے اپنے سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں۔ اس لیے احتیاط برتنی چاہیے، اور خود کو اس حوالے سے آگاہ رکھنا چاہیے۔ اینٹی بائیوٹکس کا زیادہ استعمال انسان کو بیماریوں کے نشانے پر لے آتا ہے، کیونکہ آہستہ آہستہ بیکٹیریا اس کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔

مزید پڑھیے: علاج اچھا، پر غریب کے لیے نہیں

لیکن جب ان معمولی معلومات کے ساتھ ہم خود کو ڈاکٹر سمجھنے لگیں، تو یہ کسی بڑے سانحے کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ ہم پرانے تجربات اور چاہنے والوں کے مشوروں اور معلومات کی بناء پر اپنی مرضی سے دوائیں کھاتے رہتے ہیں۔

اس میں سے زیادہ تر معلومات سنی سنائی باتوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ٹھنڈی یا کھٹی چیزیں کھانے سے گلا خراب ہوجاتا ہے، یا چیزوں کی ٹھنڈی یا گرم تاثیر ہوتی ہے۔ اپنے آس پاس موجود لوگوں سے اس کا مطلب پوچھیں، اور کسی کو بھی ان کا مطلب معلوم نہیں ہوگا۔ ایک اور بات کہ دہی اور مچھلی ساتھ کھانے سے پھل بہری (برص) ہوجاتی ہے۔

میں اب بھی کھانے کے بعد نہانے سے پہلے ایک گھنٹہ انتظار کرتی ہوں، کیونکہ بچپن سے ہی دماغ میں بٹھا دیا گیا ہے کہ کھانے کے بعد نہانے سے انسان بیمار پڑ جاتا ہے۔ اب معلوم تو نہیں کہ کیوں، لیکن امی نے کہا تھا۔

پھر سالہا سال کے بعد ان معلومات میں ڈاکٹروں کے آدھے یاد نسخوں کا بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے، اور ٹی وی پر سنی ہوئی اور انٹرنیٹ پر پڑھی ہوئی باتیں اس کے علاوہ ہیں۔ دادی کے ٹوٹکوں، ہومیوپیتھیک ڈاکٹروں اور حکیموں کے دعووں، اور گھر میں جمع شدہ طرح طرح کی رنگ برنگی دوائیں ہمیں ڈاکٹروں کے پاس جانے سے روک دیتی ہیں۔

سردیوں میں ہمارے حفاظتی اقدامات صرف ٹھنڈی چیزیں کھانے سے پرہیز تک ہی محدود رہ جاتے ہیں، جبکہ دیسی اور ایلوپیتھک دواؤں کا مکسچر مل کر جب ہمارا مرض بڑھا دیتا ہے، تو ہم مجبوراً ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔

درد وغیرہ کو تو ایسے ہی نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ جب تک دانتوں میں تین چار جگہوں پر گڑھے نہ پڑجائیں، تب تک ہم فلنگ نہیں کرواتے۔ اور ایکسرسائز، وہ تو صرف وزن کم کرنے کے لیے ہوتی ہے نہ؟

جانیے: پاکستانی ہسپتال اور کتنی جانیں لیں گے؟

لیکن تمام سنی سنائی باتوں کے ساتھ ساتھ ایک سنی سنائی بات ایسی بھی ہے، جو سب سے زیادہ کام کی ہے، اور سچ بھی ہے: احتیاط علاج سے بہتر ہے۔

دل کے امراض سے لے کر کینسر اور جوڑوں کے درد تک، دو چیزیں ایسی ہیں جو آپ کو ان امراض سے بچا سکتی ہیں، اور وہ ہیں صحت بخش کھانا اور ورزش۔ اور ورزش بھی کسی مہنگے جم میں موجود جدید مشینوں والی ورزش نہیں، بلکہ صرف چہل قدمی ہی انسان کو کئی دواؤں اور پریشانیوں سے بچا سکتی ہے۔

اور اگر صحتمند روٹین کے باوجود کوئی سنگین بیماری لاحق ہوجائے، تو فوراً ڈاکٹر کے پاس جانا نہ صرف فائدہ مند ہوتا ہے، بلکہ طویل مدت میں یہ نیم حکیموں، پیروں، اور گھر میں موجود دواؤں سے زیادہ سستا بھی پڑتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

محمد ارشد قریشی (ارشی) Apr 19, 2015 08:59pm
اثناء علی بہت اہم موضوع پر بہت خوب لکھا اس تحریر میں بیان واقعات کا ایک بہت اہم پہلو یہ بھی ہے کہ غربت خود ایک کینسر ہے بہت سے مریض غربت کی وجہ سے جدید علاج سے محروم رہتے ہیں اور باعث مجبوری ٹوٹکے آزماتے ہیں یا پیروں فقیروں جادو ٹونوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں کیونکہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہی بہت کی مثال ان پر صادق آتی ہے ۔
عبدالحئی Apr 19, 2015 11:11pm
عطائیوں، نیم حکیموں اور سیلف میڈیکیشن تو ھمیشہ ہی لائق مذّمت رھے ہیں اور رہیں گے لیکن ان کے ساتھ کسی بھی طریقہ علاج اور سالہ سال کے تجربات کو اپنی کم علمی کے سبب یکسر مسترد کرنا ایک اور حماقت ھے۔ کینسر کے مریض کو شفاء اگر حکمت یا ھومیوپیتھ نہیں دے سکتے تو ایلوپیتھک ڈاکٹروں نے کتنے مریضوں کو شفاء دی ھے یا تو آپریشن کے ذریع ان کو اپاہج کیا ھے یا پھر قبرستان کی راہ دکھائی ھے۔ معذوری یا موت کے ساتھ ساتھ مریضوں کی جیبوں کو بھی اسطرح خالی کیا کہ جو بیماری سے بچ جاتے ہیں وہ فقرو فاقے کے شکار ھوجاتے ہیں۔ یہ خیال کہ ڈاکٹر آسمانی مسیحا ہوتا ھے اور زمین پر اللہ رب العالمین کا نمائندہ خاص ھوتا ھے وہ ہمیں موت سے بچالیتا ھے پہلے خیال سے بھی زیادہ خطرناک اور ناسمجھی پر مبنی ھے۔