اسلام آباد: ہیومن رائٹس واچ، پرائیویسی انٹرنیشنل، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن اور دیگر تنظیموں نے الیکٹرانک جرائم کو روکنے کے مجوزہ بل پر شدید خدشات کا اظہار کیا ہے، اور اس کو پاکستان میں رازداری اور اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

پیر کو جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان میں سینیٹ کے اراکین پر زور دیا گیا کہ وہ اس بل کے خلاف کھڑے ہوں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ سائبر کرائم پر کسی بھی قسم کی نئی قانون سازی کو مکمل طور پر انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا جائے۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمیں اس عمل کے بارے میں شدید تشویش ہے، جس کے ذریعے الیکٹرانک جرائم کو روکنے کے مجوزہ بل کی مسودہ سازی اور اس پر نظرثانی کی گئی۔ سول سوسائٹی اور نجی شعبے سے مشاورت تو چھوڑیے، حکومت نے اس بل پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ سے قبل حقیقی عوامی جانچ سے بھی روک دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ناصرف پاکستان میں جمہوری عمل مجروح ہوگا، بلکہ اس بل میں شامل کئی شقوں سے پرائیویسی اور اظہارِ رائے کی آزادی کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔‘‘

بیان کے مطابق ’’اس بل کے سیکشن 34 سے مجموعی طور پر انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے تحت پاکستان کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اور یہ بل پرائیویسی کے حق اور اظہارِ رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے کافی تعداد میں حفاظتی اقدامات شامل کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔‘‘

اس میں مزید نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’یہ حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی عدالت کی منظوری کے بغیر سروس فراہم کرنے والے اداروں کو کسی تقریر، آواز، ڈیٹا، تحریر، تصویر یا وڈیو کو ہٹانے یا اس تک رسائی کو روکنے کا حکم دے سکتی ہے۔‘‘

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ عدالتی نگرانی کا خاتمہ کرکے یہ بل ’’استحصال کے لیے ایک بلینک چیک‘‘ فراہم کرتا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نمائندہ نگہت داد نے ڈان کو بتایا کہ ان کی تنظیم بین الاقوامی صارفین کے حقوق کے لیے کام کررہی ہے، اور اس بل کو اس نے غیرجمہوری پایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہ بل خفیہ طور پر تیار کیا گیا تھا، اور کسی کو بھی علم نہیں کہ اس بل میں درحقیقت کیا شامل ہے۔ جو کچھ بھی اس میں شامل ہے، وہ ناقابلِ قبول ہے۔ یہ بل ایجنسیوں کو نگرانی اور کسی بھی مواد کو بلاک کرنے کا من مانا اختیار دیتا ہے۔‘‘

نگہت داد نے کہا کہ یہ بل ایجنسیوں کو کسی عدالتی نگرانی کے بغیر بڑے پیمانے پر کڑی نگرانی کا اختیار دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’اس قانون کے مطابق ای میل کسی کو اس کی اجازت کے بغیر نہیں بھیجی جائے گی، دوسری صورت میں ای میل وصول کرنے والے بھیجنے والے کے خلاف ایف آئی آر درج کروا سکتا ہے۔‘‘

نگہت داد نے کہا ’’اس بات کا شبہ ہے کہ قومی ایکشن پلان کے تحت ہی سخت سزائیں دی جائیں گی، لیکن سول سوسائٹی کے سرگرم رہنماؤں اور صحافیوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Qasim Awan Apr 21, 2015 03:36pm
Agenicez jo B kar rahe hn bilkul hteek kar rahe hn.... ISI Zinda Bad