سپریم کورٹ پھانسیاں روکنے کا حکم واپس لے، حکومتی استدعا

اپ ڈیٹ 21 اپريل 2015
سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب کے مطابق فوجی عدالتوں کی جانب سے پھانسیاں روکنے کا حکم دینے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوگی—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی
سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب کے مطابق فوجی عدالتوں کی جانب سے پھانسیاں روکنے کا حکم دینے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوگی—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

اسلام آباد: حکومت نے 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق درخواستوں پر اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا ہے۔

یاد رہے کہ سینئر وکیل عاصمہ جہانگیر کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں اور 21 ویں آئینی ترمیم کی حیثیت سپریم کورٹ میں چیلنج ہے، لہذا فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت کے تعین تک سزائے موت پر عملدرآمد روکا جائے۔

جس پر چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17 رکنی فل کورٹ بینچ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے پھانسی کی سزا پر عملدرآمد روکتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔

مزید پڑھیں:فوجی عدالتوں کی سزاء پر عملدر آمد روک دیا گیا

حکومت کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کی سزا پر عملدرآمد روکنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی اور پھانسیاں روکنے کا حکم دینے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوگی۔

حکومتی جواب میں کہا گیا ہے کہ اس کیس میں ابھی عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا باقی ہے اور اس بات کا بھی جائزہ لینا باقی ہے کہ عدالت آئینی ترمیم کے معاملات کا جائزہ لے بھی سکتی ہے یا نہیں، لہذا اختیارات کے تعین سے قبل پھانسی کی سزا پرعملدرآمد روکنے کا کوئی جواز نہیں۔

حکومتی جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ ملکی حالات 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں ہیں اور فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے مجرموں کے پاس اپیل کا پورا حق حاصل ہے۔

جواب میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ پھانسیاں روکنے سے متعلق 16اپریل کا حکم نامہ واپس لیا جائے۔

فل کورٹ بینچ اب کل 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں