46 ارب ڈالر: پاکستان فائدہ کیسے اٹھائے؟

24 اپريل 2015
چینی صدر شی جنپنگ اور وزیرِ اعظم نواز شریف وزیرِ اعظم ہاؤس میں ویڈیو لنک کے ذریعے پراجیکٹس کا افتتاح کر رہے ہیں۔ — آن لائن
چینی صدر شی جنپنگ اور وزیرِ اعظم نواز شریف وزیرِ اعظم ہاؤس میں ویڈیو لنک کے ذریعے پراجیکٹس کا افتتاح کر رہے ہیں۔ — آن لائن

1948 سے 1952 کے بیچ امریکا نے یورپ کی تعمیرِ نو کے لیے ایک منصوبہ 'مارشل پلان' شروع کیا تھا، جس نے یورپ کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دی۔

پاکستان کے انفراسٹرکچر میں 46 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری پاکستان کے لیے چین کا مارشل پلان ثابت ہو سکتی ہے، جو کہ پاکستان کو ہمیشہ کے لیے ترقی کی راہ پر ڈالتے ہوئے خود کفیل بنا سکتا ہے۔

چینی صدر شی جنپنگ نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں پاکستان کے ٹوٹ پھوٹ کے شکار انفراسٹرکچر میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ اس میں سے 37 ارب ڈالر تو سیدھے سیدھے توانائی کے شعبے کے لیے مختص کیے گئے ہیں، تاکہ ملکی ترقی میں رکاوٹ بننے والے توانائی بحران کو ختم کیا جا سکے۔

پاکستان میں ہونے والی یہ سرمایہ کاری اپنے حجم اور مقصد میں بالکل مارشل پلان ہی کے جیسی ہے، جسے دوسری جنگِ عظیم کے بعد تباہ ہوجانے والی یورپی معیشتوں کی تعمیرِ نو کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ امریکی وزیرِ خارجہ جارج مارشل کے نام پر شروع کیے گئے اس پروگرام کے تحت یورپی معیشتوں میں 13 ارب ڈالر (آج کے 120 ارب ڈالر) کی سرمایہ کاری کی گئی۔

برطانیہ، فرانس، اور مغربی جرمنی کو اپریل 1948 میں شروع ہونے والے مارشل پلان کے تحت سب سے زیادہ امداد ملی۔ اب 67 سال بعد پاکستان کا مارشل پلان لانچ ہونے جا رہا ہے۔

یہ مغربی منصوبوں سے بہتر ہے

پاکستان میں سرمایہ کاری کے چینی منصوبے امریکا اور دیگر بڑے ڈونر ممالک کے منصوبوں سے بہتر ہیں۔ میں نے انہی صفحات پر پہلے بھی سوال اٹھایا تھا کہ کیا پاکستان کو واقعی امریکی امداد کی ضرورت ہے؟

"2010 میں پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد 1.8 ارب ڈالر تھی۔ بھلے ہی یہ بہت زیادہ رقم ہے، لیکن اگر اسے پاکستان کی 18 کروڑ آبادی پر تقسیم کیا جائے، تو یہ صرف 10.3 ڈالر فی کس بنتی ہے۔ کیا ہم یہ مان لیں کہ پاکستان کی بقا امریکا کی جانب سے دی جانے والی 10.3 ڈالر فی کس کی سول امداد پر منحصر ہے؟"

اس کے علاوہ مغربی ڈونر ممالک کسی ایک اہم منصوبے، جیسے ہیضے یا ملیریا کے خاتمے، پر توجہ دینے کے بجائے اپنی سرمایہ کاری کو چھوٹے چھوٹے بیسیوں منصوبوں پر لگاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اربوں ڈالر فوراً ختم ہوجاتے ہیں، اور بظاہر بڑی محسوس ہونے والی سرمایہ کاری سے عوام کی زندگی میں بہت کم تبدیلی آتی ہے، اگر آتی بھی ہو تو۔

افغانستان میں کینیڈا کے اسپانسر کردہ ترقیاتی پروگراموں کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ کینیڈین امدادی اداروں نے افغانستان میں کئی پراجیکٹ شروع کیے، جن میں خواتین کو مرکزی دھارے میں لانا اور تعلیم شامل ہیں۔ لیکن کینیڈین امدادی اداروں کی جانب سے خرچ کیے اربوں ڈالر سے وہ نتائج حاصل نہیں ہوپائے، جس کی توقع اتنی بڑی امداد سے کی جارہی تھی۔

اس کے مقابلے میں چین نے ماضی کی اور دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے کئی چھوٹے چھوٹے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے صرف دو بنیادی شعبوں، انفراسٹرکچر اور توانائی پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔

سب سے اہم منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) ہے، جس کے تحت بلوچستان کی گوادر بندرگاہ سے لے کر چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ تک سڑکوں، ریلوے لائنوں، اور پائپ لائنوں کا ایک جال بچھایا جائے گا۔

پڑھیے: چین کی نئی شاہراہِ ریشم: پاکستان کا فائدہ کتنا؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ گوادر بندرگاہ سے چین کے شمال مغربی حصے تک پہنچنا چین کی اپنی مشرقی بندرگاہوں سے پہنچنے کے مقابلے میں آسان ہے۔ اس کے علاوہ گوادر بندرگاہ تک رسائی سے مشرقِ وسطیٰ اور افریقا کی منڈیوں تک رسائی آسان ہو جائے گی۔ ابھرتی ہوئی افریقی مارکیٹس تک رسائی کے لیے چین بڑی منصوبہ سازی کر رہا ہے۔ یہ اقتصادی راہداری جدید شاہراہِ ریشم کی طرح ہوگی، اور پاکستان کی اقتصادی اور معاشرتی ترقی میں اس سے کافی مدد ملے گی۔

شفافیت اہم ہے

لیکن اقتصادی راہداری کی تفصیلات کے بارے میں کسی کو زیادہ علم نہیں ہے، جبکہ شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

یہ راہداری کن ضلعوں سے گزرے گی اور کن سے نہیں، اس بات پر حکمران جماعت کے قانون سازوں میں پہلے ہی کافی کھنچاؤ موجود ہے۔

اراکینِ پارلیمنٹ یہ جانتے ہیں کہ اقتصادی راہداری جتنا قریب ہوگی، ترقی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اس لیے وہ منصوبہ سازوں پر اقتصادی راہداری میں اپنے اپنے ضلعوں کو شامل کروانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

اسی لیے پاکستان کے صفِ اول کے ماہرینِ اقتصادیات نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں شفافیت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ نامور ماہرینِ معاشیات قیصر بنگالی اور اشفاق حسن خان نے منصوبے کی تفصیلات خفیہ رکھنے کے حکومتی فیصلے پر سوالات اٹھائے ہیں۔

گوادر کی ترقی ضروری ہے

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں سب سے زیادہ اہمیت گوادر کی ترقی کی ہے۔

لینڈ مافیا اور اونچے طبقوں نے پہلے ہی گوادر بندرگاہ کے آس پاس کی زمین حاصل کر رکھی ہے۔ گوادر، جسے عالمی سطح کی پورٹ سٹی بننا ہے، میں ایک بھی اچھا ہوٹل نہیں، جس میں دنیا بھر سے اس عالمی شہر میں آنے والے مینیجر اور تاجر ٹھہر سکیں۔

بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بندرگاہ کے آس پاس کی زمین کو رہائشی مقاصد کے لیے حاصل کر لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے گوادر کو آبنائے ہُرمز تک ترسیلات کا مرکز بنانے کے منصوبے مشکل میں دکھائی دے رہے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ گوادر میں پچھلے 20 سالوں میں ہونے والی زمین کی تمام خرید و فروخت کو منسوخ کر کے اس شہر کے لیے نئی حکمتِ عملی کے تحت ماسٹرپلان تیار کیا جائے۔

مقصد یہ ہونا چاہیے کہ شہر کو شینزن کی طرح ایک خصوصی اقتصادی زون میں تبدیل کیا جائے، جو ماہی گیروں کی ایک پسماندہ بستی سے ایک صفِ اول کی بندرگاہ بن چکا ہے، اور ماضی قریب میں 2 کروڑ 30 لاکھ کنٹینر سالانہ تک ہینڈل کرتا رہا ہے۔

چین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار اور آمادہ ہے، لیکن پاکستان کو اس کے لیے خود کو تیار کرنا پڑے گا۔ ہنرمند کارکنوں کی کمی، غیر ملکی ہنرمندوں کو لاحق خطرات، سیاسی عدم استحکام، اور خراب گورننس کی وجہ سے پاکستانی معیشت میں امداد جذب کرنے کی سکت کم ہے۔ اور اگر یہ سکت کم ہی رہی، تو چین اپنی سرمایہ کاری کسی اور ملک میں منتقل کر دے گا۔ ہمیں ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے۔

بچت منافع کی اونچی شرح کے باعث چین کے پاس کافی سرمایہ ہے، اور وہ اسے استعمال کرنے کے لیے اچھے مواقع کی تلاش میں ہے۔ پاکستان کی صورت میں چین کو مواقع، رسک، اور فائدوں کا ایک اچھا امتزاج نظر آ رہا ہے، جس سے وہ نئی منڈیوں تک آسانی سے پہنچ سکتا ہے۔

حکومت، اپوزیشن، عوام، اور ملٹری کو اس سرمایہ کاری کی اہمیت کا اندازہ کرنا چاہیے۔ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، اور اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

مہر افشاں Apr 26, 2015 09:14am
ضرورت اس بات کی ہے کہ گوادر میں پچھلے 20 سالوں میں ہونے والی زمین کی تمام خرید و فروخت کو منسوخ کر کے اس شہر کے لیے نئی حکمتِ عملی کے تحت ماسٹرپلان تیار کیا جائے۔ یہ سب سے اہم اور ضروری کام ہے جس کی طرف حکومت کو اولین توجہ دینے کی ضرورت ہے