پشاور بم دھماکے کے ملزمان اٹلی میں گرفتار

24 اپريل 2015
اطالوی پولیس نیٹ ورک کے ایک رکن کو گرفتار کر کے ساتھ لے جا رہی ہے۔ — رائٹرز
اطالوی پولیس نیٹ ورک کے ایک رکن کو گرفتار کر کے ساتھ لے جا رہی ہے۔ — رائٹرز

روم:اطالوی پولیس نےمبینہ طور پر اکتوبر، 2009 کے پشاور بم دھماکے میں ملوث ایک شدت پسند نیٹ ورک توڑنے کا دعوی کیا ہے۔

غیر قانونی نقل مکانی سے شروع ہونے والی تحقیقات کے چھ سالوں بعد پولیس نے پورے اٹلی میں مربوط چھاپوں میں 18 ملزمان میں سے نو کو گرفتار کر لیا جبکہ باقیوں کی تلاش جاری ہے۔

پراسیکیوٹر ماؤرو مورا نے سردینا میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ نیٹ ورک نے ممکنہ طور پر 2010 میں ویٹی کن پر حملے کی منصوبہ بندی کی، جب اس کا ایک خود کش بمبار اٹلی موجود تھا۔

تاہم، معاملے کی تحقیقات کرنے والے انسداد دہشت گردی کے ایک افسر ماریو کارتا نے تسلیم کیا کہ ویٹی کن پر حملے کی منصوبہ بندی کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے۔

ویٹی کن کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ مبینہ منصوبہ بندی 2010 میں ہوئی جس کی آج کو ئی مطابقت نہیں ، لہذا تشویش میں مبتلا ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

پریس کانفرنس کے دوران حکام کی جانب سے ملنے والی محدود معلوما ت کے مطابق، نیٹ ورک کے مبینہ اہم ترین ارکان میں سردینا کے علاقے اولبیا کے رہائشی اور دکان دار خان سلطان ولی اور نامعلوم امام ہیں جو شمالی اٹلی کے علاقوں میں تبلیغ کا کام کرتے تھے۔

گرفتاری وارنٹس میں ملزمان پر الزام ہے کہ وہ عالمی سطح پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ایک تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں، جو القاعدہ اور مغرب کے خلاف مسلح جدوجہد اورپاکستان کی موجودہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والی انتہا پسند گروہوں سے متاثر ہے۔

اطالوی وزیر داخلہ انجلینو الفانو نے ملک گیر چھاپوں کو ’ایک غیر معمولی آپریشن‘ قرار دیا ، جس سے سیکورٹی فورسز کی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔

الفانو کے مطابق،2009 میں غیر قانونی نقل مکانی کی شروع ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں ہم نا صرف انسانی ٹریفکنگ کا ایک نیٹ ورک توڑنے میں کامیاب ہوئے بلکہ اس کے نتیجے میں دہشت گردی کے عزائم رکھنے والے کچھ ملزمان اور اور حملہ آور بھی گرفتار ہوئے۔

پولیس کے ایک بیان میں بتایا گیا کہ ملزمان کی ٹیلی فون ریکارڈنگز سے معلوم ہواکہ نیٹ ورک کے دو ارکان ایبٹ آباد آپریشن سے پہلے اسامہ بن لادن کی سیکورٹی کا حصہ تھے جبکہ باقی ملزمان اسامہ کی ہلاکت کے بعد ان کے رشتہ داروں سے رابطوں میں رہے ۔

کچھ گرفتار اور مطلوب افراد پر اکتوبر، 2009 میں پشاور کے مینا بازار میں بم دھماکے میں ملوث ہونے کا بھی شبہ ہے۔

کارتا نے بتایا کہ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ مینا بازار بم دھماکے کی منصوبہ بندی اور فنڈنگ بڑی حد تک اٹلی سے ہوئی اور اٹلی میں مقیم دہشت گرد ہی پشاور دھماکے میں ملوث تھے۔

پولیس کے مطابق، مشتبہ نیٹ ورک بدعنوان کاروباری شخصیات کی مدد سے اور دوسرے غیر قانونی طریقوں سے پاکستانی اور افغان شہریوں کو اٹلی کے راستے یورپ سمگلنگ میں ملوث تھا۔

انسانی سمگلنگ اور عطیات کی صورت میں ملنے والا پیسہ بعد ازاں پاکستان میں طالبان اور القاعدہ سمیت مختلف شدت پسند گروہوں کو بھجوا یا جاتا تھا۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے عالمی میڈیا پر آنے والی ان خبروں پر اپنے ردعمل میں بتایاکہ اسلام آباد نے روم میں سفارت خانے سے رابطہ کرتے ہوئے گرفتار ملزمان کی شناخت کی تصدیق کرنے کو کہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں