لاہور: پنجاب میں پولیس کو اجازت دی جارہی ہے کہ وہ شادی کی تقریبات پر براہ راست چھاپہ مار کر کھانے کی ایک ڈش کی اور تقریبات کے رات دس بجے تک انعقاد اجازت کی خلاف ورزی کو روکیں۔ اس کے علاوہ پولیس بیس لاکھ روپے تک جرمانہ بھی کرسکے گی۔

جمعرات کو ڈان کے علم میں یہ بات آئی کہ شادی کی تقریبات (نمود و نمائش کے لیے بے جا اخراجات پر پابندی) آرڈیننس 2000ء کی جگہ لینے والے ایک نئے قانون کے ذریعے یہ سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔

یہ وفاقی قانون دراصل شادی کی تقریبات میں کھانا کھلانے پر پابندی کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن بعد میں حکومت نے کھانے کی ایک ڈش کی اجازت دے دی تھی۔

ان خلاف ورزیوں میں بے جا اخراجات، آتش بازی اور برقی قمقموں کا چراغاں بھی شامل ہوسکتا ہے۔

اصل قانون کے تحت یہ جرائم قابل دست اندازی نہیں ہیں۔ اس کے تحت اس کے مجرم کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا ’’صرف وفاقی یا صوبائی حکومت کے مقرر کردہ آفیسر یا ادارے کو ایک تحریری شکایت دی جاسکتی ہے۔‘‘

اس قانون کے تحت جرمانے کے ساتھ یا بغیر جرمانے کے قید کی سزا جس کی مدت ایک مہینے تک ہوسکتی ہے، دی جاسکتی ہے، اور یہ جرمانہ ایک لاکھ سے پانچ لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگا۔

اس کے تحت شادی کی تمام تقریبات جن میں مذہبی یا شہری روایات کے تحت نکاح، رخصتی، ولیمہ، مہندی، رسمِ حنا یا دیگر تقریبات شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق حکام نے اس پر بھی تبادلہ خیال کیا کہ اس قانون کے تحت کارروائیوں کے دوران پولیس کی من مانیوں کو کس طرح روکا جائے۔

اس بات پر بھی غور کیا جارہا ہے کہ پولیس کے لیے لازم کردیا جائے کہ وہ ان چھاپوں کے دوران مقامی معزز شخصیات یا دیگر سرکاری محکموں کے نامزد عہدے داروں کا اپنے ہمراہ رکھیں، تاکہ لوگوں کو ہراساں کرنے سے وہ پولیس کو روک سکیں۔

ایک عہدے دار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’پولیس کے یہ ’چھاپے‘ یقینی طور پر بڑے پیمانے پر بے چینی پیدا کردیں گے۔ جی ہاں، مجوزہ قانون جابرانہ ہے۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں