گرتا معیارِ تعلیم: کیا کسی کو فکر ہے؟

25 اپريل 2015
اگر طلبہ اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی برائیوں کا شکار ہوتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارا معیار تعلیم گرتا جا رہا ہے۔ — اے پی
اگر طلبہ اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی برائیوں کا شکار ہوتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارا معیار تعلیم گرتا جا رہا ہے۔ — اے پی

پاکستانی اراکینِ پارلیمنٹ کی ڈگریاں جب پے درپے جعلی ثابت ہونے لگیں، اور انہیں نااہل قرار دیا جانے لگا، تو سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا تھا کہ "ڈگری ڈگری ہوتی ہے، چاہے اصلی ہو یا جعلی" اور اپنے مؤقف کے حق میں آخر تک دلائل بھی دیتے رہے۔ سابق وزیرِ اعلیٰ کی اسی بات کے حساب سے اگر ہم پاکستان میں نظامِ تعلیم کی حقیقت کو دیکھیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ "شکر ہے تعلیم تو ہے، چاہے معیاری ہو یا غیر معیاری۔"

من حیث القوم ہم اب تک تعلیم کی حقیقت کو سمجھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ہمیں شروع دن سے ہی تعلیم برائے ملازمت کا جو درس دیا گیا ہے، ہم کسی صورت بھی اس سے باہر نکل نہیں پا رہے۔ ہم میں سے اکثر کا خیال اب تک یہی ہے کہ اگر تھوڑا بہت پڑھ لیا ہے اور نوکری (چاہے قانونی یا غیر قانونی طریقے سے) حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو بس یہ ہماری کامیابی ہے.

پڑھیے: کیا تعلیم کا مقصد صرف نوکری ہے؟

پاکستان میں غریبوں کی پہنچ میں معیاری تعلیم تو کیا آئے گی، تعلیم بھی روز اول سے ہی غریب لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔ ہمارے ملک میں اب بھی پچپن لاکھ بچے ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے، جب کہ کچھ سال پہلے یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ تھی۔

پاکستان کی زیادہ تر آبادی اب بھی دیہاتوں میں ہی رہتی ہے، مگر پاکستان کے دیہی علاقوں کی شرحِ خواندگی، تعلیمی سہولیات، معیارِ تعلیم، اسکولوں میں داخلے کی شرح، اساتذہ کی تربیت و تعلیمی قابلیت نہ صرف مایوس کن ہے، بلکہ انتہائی خطرناک بھی ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے اپریل 2015 میں جاری ہونے والے اپنی سالانہ رپورٹ میں ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کی ہے، کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو "2015 تک تعلیم سب کے لیے" کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

رپورٹ میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان میں گھوسٹ اسکولوں اور اساتذہ کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ صوبہ سندھ میں گھوسٹ اسکولوں کی تعداد 6480 اور صوبہ بلوچستان میں یہ تعداد 5000 بتائی گئی ہے۔ جب کہ ان گھوسٹ یعنی وجود نہ رکھنے والے اسکولوں سے ہزاروں گھوسٹ اساتذہ باقاعدہ تنخواہیں بھی لے رہے ہیں، اور بہت سارے ایسے بھی ہیں جو کئی سال پہلے وفات پا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہی کہ 2010 میں پاکستان کے بدعنوان ترین شعبوں میں محکمہ تعلیم کا نمبر چوتھے نمبر پر تھا۔

مزید پڑھیے: گوسڑو ماستر تعلیم کے لیے خطرہ

یونیسکو کی حالیہ رپورٹ ہمارے حکمرانوں کی اور ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، لیکن یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کسی کی آنکھیں کھلیں گی بھی یا نہیں۔ ہم اپنی نئی نسل کے ساتھ تعلیم اور معیاری تعلیم کے نام پر کیا گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں، اس کے نتائج آنے والے وقتوں میں بہت شدت سے سامنے آئیں گے۔

2001 میں جب سینیگال کے دارلحکومت ڈاکار میں دنیا کے 164 ممالک نے 2015 تک تمام بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کے اعلامیے پر دستخط کیے تو پاکستان بھی ان ممالک میں شامل تھا، پر یونیسکو کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے اس حوالے سے کردار پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔

پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نظامِ تعلیم بھی دوہرا ہے، جس کی وجہ سے طبقاتی فرق ختم ہونے کے بجائے اگر بڑھ نہیں رہا، تو کم بھی نہیں ہو رہا۔ امیروں کے لیے الگ معیار کی تعلیم ہے، تو غریبوں کے لیے الگ، شہروں میں رہنے والے بچوں کے لیے الگ، دیہاتوں میں رہنے والے بچوں کے لیے الگ، سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے الگ، اور پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے الگ۔

بدعنوان ترین محکموں میں ایک محکمہ تعلیم ہر وقت سیاسی حکومتوں کے زیر عتاب رہتا ہے، اور ہر آنے والے حکمران اپنے دور حکومت میں سیاسی، خاندانی، مذہبی، اور دیگر بنیادوں پر ہزاروں من پسند نا اہل افراد کو اساتذہ کی پوسٹوں پر تعینات کرتے ہیں۔ اب جو اساتذہ صرف رشتہ داریوں اور رشوتوں کی بنیاد پر بھرتی کیے جائیں، تو کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بچوں کو پڑھا سکیں گے؟ نتیجتاً ملک میں معیار تعلیم بڑھنے کے بجائے اس کا جنازہ نکل رہا ہے۔

جانیے: کیا تعلیم جمہوری حکومت کی ترجیحات میں ہے؟

جو حکمران خود جعلی ڈگریاں لے کر اسمبلیوں میں پہنچے ہوں، ان سے بھلا یہ توقع رکھی بھی کیسے جا سکتی ہے کہ وہ معیارِ تعلیم بڑھانے اور میرِٹ پر اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے کام کریں۔

دنیا میں تعلیم کے شعبے کو ہمیشہ سب سے پہلے اور سرفہرست رکھا جاتا ہے اور ہر سال اس کے لیے مختص بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ بھی کیا جاتا ہے، مگر سال 15-2014 کے بجٹ میں گذشتہ سال کے مقابلے میں کٹوتی یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ہم تعلیم کو کتنی ترجیح دیتے ہیں۔ اسی حوالے سے ایک چینی کہاوت ہے، کہ اگر ایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو فصلیں اگاؤ۔ اگر ایک سو سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو درخت اُگاؤ اور اگر آئندہ ایک ہزار سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو تعلیم پر سرمایہ لگاؤ۔ مگر افسوس صد افسوس ہم آئندہ پانچ سالوں کی بھی بہتر انداز میں منصوبہ بندی نہیں کر پاتے۔

ایک دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ لوگ ڈگریاں بھی لے رہے ہیں، اور سولہ سولہ جماعتیں بھی آسانی پاس کر جاتے ہیں، مگر پھر بھی وہ نوکریوں اور روزگار کی خاطر مارے مارے پھرتے ہیں۔ تو دوسرے پہلوؤں، مثلاً صنعتوں کی کمی وغیرہ کے ساتھ ساتھ اس پہلو پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے کہ اگر ہمارے نظام تعلیم کے مقاصد پورے نہیں ہو پا رہے، تو کہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہمارے نظام میں کوئی گڑبڑ ہے؟

معیارِ تعلیم کا ایک نکتہ کردار سازی ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ طلبہ کی سیرت اور ان کی روزمرہ زندگی میں کیا مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اگر یہی طلبہ اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی برائیوں کا شکار ہوتے ہیں، تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم معیار تعلیم میں آگے جانے کے بجائے پیچھے جارہے ہیں۔

حیران کن: سندھ میں تعلیم کا رابن ہڈ

تعلیمی معیار کو بڑھانے کے لیے میرٹ پر اساتذہ کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی بہتر تربیت بھی ضروری ہے تاکہ وہ بدلتے حالات کے مطابق طلبہ کی تربیت کر سکیں۔ مگر ماضی میں ایسا نہیں ہو سکا ہے جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔ اور اگر یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہا تو ہمارا مستقبل بھی ایسا ہی ہوگا جیسا کہ آج ہمارا حال ہے۔

ہمارے معیار تعلیم کے زوال کے پیچھے کئی وجوہات پوشیدہ ہیں، مگر یہ بات مسلمہ ہے کہ ہم اس کی ذمہ داری صرف حکومت یا اساتذہ پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ اس کی بہتری کے لیے والدین، سول سوسائٹی، اور حکمرانوں سمیت معاشرے کے تمام ذمہ دار افراد کا فرض ہے۔ برائی کو معاشرے سے ختم کرنا ہو یا ایک پھر ایک انصاف پر مبنی مثبت معاشرے کا قیام، دونوں کے لیے معاشرے کے ان تمام اکائیوں کی طرف سے محنت شرط ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Jankhan Shinwari Apr 26, 2015 10:16am
جس طرح دھشت گردوں کے خلاف اپریشن ھو رھے ھیں ایسی طرح محکمہ تعلیم کے خلاف بھی اپریشن ضروری تاکہ انگریزوں کا مرتب کردا نظام تعلیم سے چھٹکارا حاصل ھو جاے (نوٹ) جس ملک میں لارڈ میکلے کا فرسودہ نظام ھو تو پھر اس نظام کا اللہ ھی حافظ ھو.
Ghatib Ali Shad Apr 26, 2015 10:19am
اب تعلیم اک بوجھ بن گیا ہے، 1بہت سی زبانوں کا بوجھ، ماں بولی، مذہبی زبان، قومی زبان، انٹرنیشنل زبان سیکھنے کا معصوم دماغ پر بوجھ ۔ 2 غیر ضروری نصاب کی بہت سی کتابیں، والدین پر معاشی بوجھ ۔ 3 بچے کے اپنے وزن سے زیادہ بستہ کا بوجھ ۔ 4 بہت سے مضمون کا بچے کے دماغ پر بوجھ ۔ 5 اسکول کے اخراجات و ٹیچر کے ناز نکھروں کا بوجھ ۔ اس کے باوجود بچہ و ٹیچر نالائق.
fida Apr 28, 2015 12:28pm
ہمارئے نظام تعلیم کو نئے سرئے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے ورنہ نچلے سکولوں سے کلرک ،مدرسوں سے شدت پسند مولوی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے حکمران پیدا کرنے کی روش جاری رہے گی جس کا خمیازہ خطرناک شکل میں بگھتنا پڑسکتا ہے کیونکہ اس وقت تینوں طبقے اپنی اپنی جگہوں پر شدت پسند ہیں ۔