'ٹیم میں کوئی میچ ونر نہیں'

فائل فوٹو اے ایف پی
فائل فوٹو اے ایف پی

کراچی: قومی ٹیم کے سابق عظیم بلے باز ظہیر عباس نے بنگلہ دیش کے خلاف قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی پر کہا ہے کہ اس وقت پاکستانی ٹیم میں کوئی میچ ونر نہیں۔

ایشین بریڈ مین کے نام سے مشہور سابق بلے باز نے سرکاری خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہا کہ جو عزم و ہمت بنگلہ دیشی ٹیم میں نظر آ رہی ہے وہ پاکستانی ٹیم میں دکھائی نہیں دے رہی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے کھلاڑیوں میں جیت کی اس قوت ارادی کی کمی ہے جو بنگلہ دیشی ٹیم میں نظر آ رہی ہے، اس وقت مجھے پاکستانی ٹیم میں کوئی فتح گر کھلاڑی نظر نہیں آ رہا جو انتہائی مایوس کن ہے۔

ظہیر عباس نے کہا کہ ہمارے کھلاڑی اپنی جانب آنے والے کیچز میں ہاتھ بھی نہیں ڈالتے، مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ گیم پلان کی کمی کہاں ہے، آیا کوچنگ اسٹاف کھلاڑیوں کو سمجھا نہیں پا رہے یا کھلاڑی گیم پلان پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوچز صرف تربیت دینے اور کھلاڑیوں کو مشورہ دینے کیلئے ہوتے ہیں جن پر کھلاڑیوں نے فیلڈ میں جا کر عمل کرنا ہوتا ہے۔

آئندہ سال ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے حوالے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس ایونٹ کیلئے ابھی سے تیاری شروع کر دینی چاہیے اور نوجوان کھلاڑیوں کو ٹیم میں موقع دینا چاہیے۔

ظہیر عباس نے زمبابوین ٹیم کے دورہ پاکستان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس دورے کے ختم ہوتے ہی پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) کو دیگر ٹیسٹ کھیلنے والے ملکوں سے بھی رابطہ کرنا چاہیے کیونکہ تمام لوگوں کی نگاہیں اس دورے پر مرکوز ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ زمبابوین ٹیم کا دورہ پاکستان کامیاب اور ملک میں عالمی کرکٹ کی بحالی میں مدگار ثابت ہو گا، مجھے یقین ہے کہ زمبابوے کے دورے کے بعد بہت سی ٹیمیں پاکستان آنے میں دلچسپی ظاہر کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ پی سی بی کو لاہور کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی میچز کا انعقاد کرانا چاہیے تھا کیونکہ ناصرف کھلاڑی بلکہ پوری قوم ہی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ دیکھنے کیلئے بیتاب ہے۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ اس سلسلے میں راولپنڈی، کراچی اور اسلام آباد اچھا آپشن ثابت ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ زمبابوے کی ٹیم 19 مئی کو دورہ پاکستان پر لاہور پہنچ رہی ہے جہاں وہ تین ایک روزہ اور دو ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گی۔

زمبابوین ٹیم کے دورہ پاکستان سے عالمی کرکٹ کے دروازے کھل جائیں گے جو مارچ 2009 میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد بند ہو گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں