اسکواش کی تاریخ کے عظیم ترین کھلاڑی جہانگیر خان نے پاکستان میں اسکواش کی از سرنو بحالی اور اسے بلندی تک پہنچانے کیلئے نیا منصوبہ تیار کیا ہے۔

منصوبے کا مقصد ماضی میں اسکواش کے سب سے کامیاب ملک پاکستان کی صورتحال میں تبدیلی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان نے 1997 سے برٹش اوپن ٹائٹل نہیں جیتا اور ان اٹھارہ سالوں میں ملک کا کوئی بھی کھلاڑی ابتدائی ٹاپ ٹین کھلاڑیوں میں جگہ نہیں بنا سکا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی برٹش اوپن کے مین ڈرا تک کوالیفائی نہیں کر پارہا۔

دس مرتبہ برٹش اوپن ٹائٹل جیتنے والے جہانگیر خان نے اتوار کو انگلینڈ میں برٹش اوپن کے آخری دن گفتگو کرتے ہوئے کہا ’ہمیں صورتحال بدلنے کیلئے بہت کچھ کرنا ہو گا۔ اس میں فنڈز کے ساتھ ساتھ بہترین تنظیمی ڈھانچے کی بھی ضرورت ہے اور ہمارے پاس ایک منصوبہ ہے جس کے ذریعے ملک میں کھیل کی بحالی کا امکان ہے‘۔

ملک میں اسکوائش کو دوبارہ بلندیوں تک پہنچانے کے منصوبے میں جونیئر اکیڈمی کا قیام بھی شامل ہے جو کراچی میں جہانگیر خان کی اکیڈمی روشن خان/ جہانگیر خان کمپلیکس میں موجود سہولتوں کو استعمال کرے گی۔

منصوبے کے تحت کوچز کی بھرتی اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو تیار کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں غیر ملکی ٹورنامنٹس میں شرکت کیلئے وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔

یہ اکیڈمی جلد ہی ملائیشیا میں ہونے والے ٹورنامنٹ سمیت قومی اور انٹرنیشنل مقابلوں میں شرکت کرنے والے بچوں کو کھانا، سازوسامان اور مالی مدد بھی کرے گی۔

اس کے علاوہ معروف تاجر کاظم انور کی اسپانسرشپ کی بدولت کچھ بچوں کی زندگی تبدیل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔

پاکستان میں اسکواش کی متعدد درخشاں و تابندہ روایات ہیں جن کی بدولت نوجوان کھلاڑیوں کو اس کھیل کی جانب مائل کی جا سکتا ہے۔

20ویں صدی میں پاکستان نے سات برٹش اوپن چیمپیئن پیدا کیے اور 78 سالوں میں ہونے والے مردوں کے ان مقابلوں میں پاکستانیوں نے 30 سال تک یہ اعزاز اپنے پاس رکھا۔

51 سالہ جہانگیر خان نے کہا کہ ان کے خیال میں پاکستان کے پاس ابھی بھی ایسے باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں جنہیں عظیم بنایا جا سکتا ہے لیکن اصل مسئلہ وسائل کی دستیابی اور ایک ایسی تنظیم کا ہے جو اسے بہترین طریقے سے استعمال کر سکے۔

champions hunt initiative program (چپ) نامی منصوبے کے تحت بچوں کو عمر کی پانچ مختلف درجوں میں تقسیم کرنے کے بعد فل ٹائم کوچز کی نگرانی میں مکمل ٹریننگ فراہم کی جائے گی۔

جہانگیر خان خود بھی کوچنگ میں مدد کریں گے جبکہ پروگرام کے ڈائریکٹر سعید خان اور کوآرڈینیٹر راشد احمد بھی اس منصوبے پر کام کریں گے۔

تاہم، یہ منصوبہ اتنا آسان نہیں اور اس کی راہ میں کئی مشکلات حائل ہیں۔

پاکستان میں اسکواش کی امیدوں کو پہلا دھچکا دیگر ملکوں میں اس کھیل میں بڑھتی ہوئی فنڈنگ سے پہنچا جس کی وجہ سے ان ملکوں نے بہترین اور تیزی سے ترقی کرتی اسپورٹس سائنس کا فائدہ حاصل کیا۔

اس کے علاوہ ملک میں کھیلوں کی سہولتوں کی کمی نے جدید مسابقتی دنیا میں ٹیلنٹ کو تیار کرنا اور بھی مشکل بنا دیا۔ اس پر سیاسی عدم استحکام نے ضرب کاری کا کام کیا جس کی وجہ ملک میں تقریباً ایک دہائی سے کوئی اہم مقابلہ منعقد نہیں ہوا۔

2009 کے بعد سے پاکستان میں کوئی پی ایس اے ورلڈ ٹور ٹورنامنٹ منعقد نہیں ہوا۔

ماضی کے عظیم کھلاڑی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کا مقصد ملک میں اسکواش کی گورننگ باڈی پاکستان اسکواش فیڈریشن کا مقابلہ کرنا ہرگز نہیں۔’ہم صرف مدد کرنا چاہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے‘۔

اس موقع پر انہوں نے مشرق وسطیٰ کے کھلاڑیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دراصل مصر اور پاکستان کا اسٹائل ایک جیسا ہے۔

مصر نے گزشتہ 15 سال میں خود کو تبدیل کرتے ہوئے اسکواش کا کامیاب ترین ملک بنایا اور اس وقت صف اول کے موجودہ کھلاڑیوں امر شبانا اور رمے اشور کا تعلق مصر سے ہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم اپنے بہترین اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو بہترین کھیل پیش کرنے کے لیے مدد فراہم کر سکتے ہیں لیکن یہ ایک فل ٹائم کام ہے‘۔اے ایف پی

تبصرے (0) بند ہیں