کسٹم افسران کو مولانا طارق جمیل کا تبلیغی درس

19 مئ 2015
مولانا طارق جمیل۔ —. بشکریہ فیس بک پیج
مولانا طارق جمیل۔ —. بشکریہ فیس بک پیج

کراچی: پیر کی صبح کسٹم ہاؤس کے ڈائریکٹوریٹ آف ٹریننگ اینڈ ریسرچ آڈیٹوریم میں کسٹم کے افسران کے لیے ایک مذہبی عالم کے تبلیغی درس کا اہتمام کیا گیا۔

معروف مذہبی عالم مولانا طارق جمیل نے ’’حسن عمل، اخلاقیات اور عوامی خدمات کی ادائیگی‘‘ پر ایک لیکچر دیا، جس کا اہتمام فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے کیا تھا۔

لگ بھگ ساٹھ برس کے معروف خطیب مولانا طارق جمیل تبلیغی جماعت کے رکن ہیں، جو دیوبندی مکتبہ فکر کی تائید کرتی ہے۔

ایف بی آر نے 14 مئی کو اس سلسلے میں اسلام آباد سے ایک مراسلہ (سی نمبر:152879/ایس (ایچ آر ڈی)/2014ء) جاری کیا تھا۔

یہ مراسلہ تمام چیف کمشنرز، چیف کلکٹرز اور ڈائریکٹرز جنرل کے نام تھا، تاکہ وہ اس درس کے بارے میں اپنے ماتحت افسران کو مطلع کردیں۔

چند کسٹم افسران جن کی مدت ملازمت پانچ سے پندرہ برس تک تھی، انہوں نے ڈان کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع تھا کہ کسٹم کی جانب سے اس طرح کے درس کا اہتمام کیا گیا۔

ڈان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے کہا کہ مذہب کو ریاستی معاملات میں متعارف نہیں کرایا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ موضوع اس سے متعلق تھا، لیکن انہوں نے کہا کہ یہ زیادہ مناسب ہوتا کہ اگر کسی تیکنیکی طور پر تعلیم یافتہ پروفیشنل کو لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا جاتا۔

زہرہ یوسف نے کہا کہ اخلاقیات کو انسانیت سے منسلک ہونا چاہیے، نہ کہ مذہب سے۔ انہوں نے کہا کہ اگر متعلقہ شعبے میں کسی پروفیشنل کو لیکچر کی دعوت دی جاتی، تو زیادہ مناسب ہوتا، اس طرح کسٹم افسران کو ان کی پیشہ ورانہ مہارت کو بہتر بنانے میں مدد ملتی۔

تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سرکاری اہلکاروں کو درس دینے کے لیے حکومت نے کسی مذہبی عالم کو دعوت دی ہو۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے جنگلات اور ماحولیات کے سیکریٹر شمس الحق میمن نے یاد دلایا کہ ایک دہائی قبل سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم اپنی مدت اقتدار کے دوران حکومت کے سیکریٹریوں، محکموں کے سربراہوں اور دیگر اعلیٰ سطحی حکام کے لیے مولانا طارق جمیل کے درس کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر ہر دو سے تین مہینوں کے بعد جمعہ کے روز افسران کو درس سننے، نماز کی ادائیگی اور پھر وزیراعلیٰ سے ملاقات کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (14) بند ہیں

عادل عمر May 19, 2015 01:46pm
میں اس بات سے متفق ہوں کہ ’’ مذہب کو ریاستی معاملات میں متعارف نہیں کرایا جانا چاہیے‘‘ بات سوچنے کی یہ بھی کہ پاکستان میں چار بڑے مسلم مکتبہ فکر ہیں۔ جن میں بریلوی ، شعیہ ، دیوبندی، اور اہل حدیث ہیں۔ لیکن عموما دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ پاکستان کے اعلی سرکاری دفتر ہوں یا نجی اور سرکاری یونیورسٹیاں حکومتی سطح پر صرف ایک ہی ’’مکتبہ فکر‘‘کو اپنے نظریات پیش کرنے کی دعوت دی جاتی ہے ۔ جب کہ باقی کسی اور دوسرے مکتبہ فکر کے عالم دین میں نے نہیں دیکھا کہ اس کو کسی سرکاری یونیورسٹی یا کالجز، یا اعلی سرکاری دفتر میں لیچکر کے لئے مدعو کیا ہو۔
Aziz ahmed May 19, 2015 02:21pm
zohra sahiba . Mulana tariq jameel ta daras ye nahi ho ta k nafrat pehlaye balky wo aman ki bat karty hy ..jo hamara mazhab islam sikata hy .... mare kayal m ap ko b in ka daras suna chahye gour s . okay
Abdullah May 19, 2015 02:28pm
Jab Islam ky naam par mulk ban sakta hay aur lakho loog shaheed ho saktay hain to dars daynay may miss zuhra ko kia takleef hay?
Abid maqsood May 19, 2015 02:51pm
Lectures to Customs Officer by professionals are often delivered but lecture by religious scholar is purely as anti corruption measure. Even USA is getting services of Islamic Religious scholars (specially by Tableegi persons) for their criminals imprisoned in different Jails. This arrangement has substantially reduced the crime ratio of individuals after their completion of imprisonment. Indeed this is an effective anti corruption measure. All must appreciate. Human Rights concern does not seem rationale.
Abdur Rehman May 19, 2015 04:18pm
I think Zuhra should attend this training for knowing what Tariq Jameel was teaching custom's officers. Tariq Jameel is in educated & will mannered person and gone through different type of life situation. I believe he teaches more better.
عتیق May 19, 2015 05:42pm
@عادل عمر یقینا آپ نے انکا بیان نہیں سنا ہوگا۔ ایک جاہل انسان اور عالم کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ یہ وہی علما ہیں جن کے بارے میں محمدﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ لوگ بنی اسرائیل کے انبیا کے برابر ہونگے۔ کیا آپ محمدﷺ کے دور میں پیدا ہوتے تب بھی یہی کہتے؟ علامہ طارق جمیل صاحب کا شمار ان علما میں ہوتا ہے جو تمام مکاتب فکر کے لیے باعث احترام ہیں۔
Saeed Khan May 19, 2015 05:57pm
JazakAllah Maulana Tariq jameel sb .. Allah hum sub Pakistaniyon Ko naik aamaal ki taufeeq dy .Ameen
ali akbar May 19, 2015 06:07pm
مولاناجیسا فرقہ واریت سے پاک لب ولہجہ اللہ نے ھرعالم کونہیں دیا اورکسٹم افسران کواخلاقیات کے درس دینا مفیدھے، اسلام کے نام پربناھوا ملک میں اسلامک لیکچر پارلمنٹ میں بھی عیب نھیں ھے اگریہ جرم ہے توپہرسرکاری سکویوں کالجوں سےاسلامیات نکال دیاجائے پروفیشنل لیکچر اپنی جگہ پہ ضروری ھے،لیکن اسلامی تعلیمات ھماری آیین کاحصہ ھے، اس سے نفرت کرنا جرم ھے
zeeshan iqbal May 19, 2015 06:10pm
Asa daris hona chachea q ka education tu officers na already li hoi ha islam ki taleem ki lazmi ha. Ta ka hum guno sa bach kar dunia or akhrat ma kamyab ho sakta. آمين يارب العالمين
umer May 19, 2015 06:18pm
Really miss Zahra thinks that Islam is not a complete code of life. Does she realy think that it is a wastage of precious time of custom officers? Islam tells us that what is bad or good. We as a muslim have belive that Islam is not a personal matter of a person. It covers al aspect of our life. So she must knows about basic muslim rights that a muslim should have basic islamic knowlede. 'Kavva chla hans ki chaal apni chaalbe bhool gea...
Ali raza May 19, 2015 07:35pm
This is a good attitude of govt, what is problem with dawn????????????
Malik USA May 19, 2015 07:41pm
We should not think like this "he has this maslak, he has that maslak" As long as Moulana Tariq Jajeel was not there to promote his maslak definitely he had spoken only about Akhliat, honesty etc etc. Do not think like this In USA the govt has given the permission to the registered Islamic organisation to teach/preach in jail. Every second Saturday one group from our masjid use to go there and it is for all like Muslim or Nonmuslim
ڈاکٹرشفیق May 19, 2015 10:48pm
زہرہ صاحبہ کہتی ھے: "اخلاقیات کو انسانیت سے منسلک ہونا چاہیے، نہ کہ مذہب سے۔" زہرہ صاحبہ ! انسانی اخلاقیات کی اصلاح کا واحد ذریعہ دین اسلام ھے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادھے"انمابعثت لمکارم الاخلا‍ق" میں اخلاقیات کی اچہایی کے لیے بیھجاگیاھے انسانیت کی دعوہ کرنے والوں عالمی اداروں میں اگر واقعی انسانیت کاجزبہ تھا،توفلسطین کے غزہ،مصرکے زندانوں میں ،کشمیر اوربرماکے مسلمانوں پرہونی والے مظالم پراس کےکوئی موثر ری ایکشن نظر ارہاتہا ۔ دوسرے بات یہ ھے کہ عام انسانی اخلاقیات میں بھت سے چزیں عیب نہیں ھے،جوکہ اسلام میں وہ مردود اور حرام ھے جیسے شراب،زنا،ھمجنس پرستی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
MOiz May 20, 2015 11:00am
@عادل عمر . zarori nai k firkawareat ki jaey aor ye b zarori nai k har firka k alg alg bayan aor tableeg karey, sab sy ziyada ye zarorri hy k hum apny andar ikhlaak buland karey aor faraiz poray kareyn