ایگزیکٹ کے ساتھ دستاویزات کی تصدیق کا معاہدہ نہیں، امریکا

اپ ڈیٹ 20 مئ 2015
ایگزیکٹ کی بلڈنگ کا ایک منظر—۔فوٹو/بشکریہ ایگزیکٹ ویب سائٹ
ایگزیکٹ کی بلڈنگ کا ایک منظر—۔فوٹو/بشکریہ ایگزیکٹ ویب سائٹ
—

امریکا نے پاکستان کی سافٹ ویئر کمپنی ایگزیٹ پر جعلی اسناد کے ذریعے دنیا بھر میں لاکھوں ڈالرز کمانے کے الزام پر وضاحت کی ہے کہ ان کا کمپنی کے ساتھ دستاویزات کی تصدیق کا کوئی معاہدہ نہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو جعلی سازی سے بچانے کیلئے متعلقہ معلومات اپنی ویب سائیٹ پر وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔

منگل کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم یونٹ نے ایگزیکٹ کے اسلام آباد اور کراچی کے دفاتر میں جا کر مینوئل، ریکارڈز اور کمپیوٹرز کی فورنسک جانچ کیلئے قبضے میں لے لیا۔

میڈیا میں ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر طاہر تنویر کے حوالے سے بتایا گیا کہ اسلام آباد و راولپنڈی میں ایگزیکٹ کے دفاتر کو سیل کر کے بائیس کے لگ بھگ ملازمین کو پوچھ گچھ کیلئے حراست میں لے لیا گیا۔

دوسری جانب، ڈان نیوز نے ایف آئی اے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ایجنسی کے کارپوریٹ کرائم یونٹ کی ایک ٹیم نے کراچی میں ایگزیکٹ کے دفتر میں جا کر ملازمین سے پوچھ گچھ کی۔

چھاپہ مار ٹیم کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایف آئی افسران نے ایگزیکٹ کے کراچی میں واقع ہیڈ کوارٹرز سے آلات اور ریکارڈ کو قبضے میں لے کر ملازمین کو عمارت سے بے دخل کردیا۔

ادھر، ایف آئی اے کے کارپوریٹ کرائم سرکل نے نوٹس جاری کرتے ہوئے ایگزیکٹ کے سربراہ شعیب احمد شیخ کو جمعرات کو طلب کر لیا۔

ایف آئی اے نے کمپنی کے اعلی عہدے داروں سے کہا ہے کہ وہ اپنی رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ، ٹیکس ریٹرن کی تفصیلات وغیرہ فراہم کریں۔

ایگزیکٹ کے خلاف کارروائی کا آغاز اس وقت ہوا جب وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں پاکستانی کمپنی سے متعلق عالمی سطح پر جعلی ڈگریوں کے اسکینڈل کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد تحقیقات کا حکم دیا۔

وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار نے ایف آئی اے کو تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

وفاقی وزیر نے اپنی ہدایت میں یہ بھی کہا کہ ایف آئی اے اس بات کا تعین کرے کہ نیویارک ٹائمز کی خبر میں کس حد تک صداقت ہے۔

ایف آئی اے کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ الزامات درست ثابت ہونے کی صورت میں پاکستان الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس کے تحت اس جرم میں سات برس قید تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

ایف آئی اے ٹیم کی جانب سے ایگزیکٹ کے اسلام آباد آفس سے قبضے میں لیے گئے کمپیوٹرز—۔ڈان نیوز اسکرین گریب
ایف آئی اے ٹیم کی جانب سے ایگزیکٹ کے اسلام آباد آفس سے قبضے میں لیے گئے کمپیوٹرز—۔ڈان نیوز اسکرین گریب

یاد رہے کہ گزشتہ روز امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز نے پاکستان میں اپنے بیورو چیف ڈیکلن والش کی تفصیلی رپورٹ بعنوان "Fake Diplomas, Real Cash: Pakistani Company Axact Reaps Millions" شائع کی، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح اپنے معاملات خفیہ رکھنے والی پاکستانی آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ نے مبینہ طور پر جعلی اسناد، گھوسٹ یونیورسٹیوں اور صارفین سے ہیرا پھیری کرتے ہوئے لاکھوں ڈالرز کمائے۔

مضمون میں کمپنی کی جانب سے میڈیا گروپ 'بول' شروع کرنے کے حوالے سے بھی سوالات اٹھاتے ہوئے اس کے پاکستانی فوج یا پھر منظم جرائم پیشہ گروہوں سے تعلق کا الزام لگایا گیا۔

سینیٹ نے بھی نوٹس لے لیا

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں پاکستانی کمپنی ایگزیکٹ سے متعلق رپورٹ آج سینیٹ میں بھی زیرِ بحث رہی۔

سینیٹ میں اظہارِ خیال کرتے پوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ 'اخبارات میں شائع ہونے والی خبر پاکستان کے ساتھ منسوب ہے اور بول نیٹ ورک کے سی ای او شعیب اے شیخ کو وضاحت کا پورا اختیار ہے'۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ اخباری رپورٹ کے مطابق ایک پاکستانی کمپنی جعلی ڈگریاں جاری کر رہی ہے۔

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ ہم پاکستانی جعل سازی میں اتنے ماہر ہیں، لہذا معاملے کی سنجیدگی کے باعث اسے ہاؤس کمیٹی کے سپرد کردینا چاہیے۔

جس کے بعد چئیرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے نیویارک ٹائمز میں چھپنے والی خبر کا معاملہ مزید تحقیقات کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے سپرد کردیا۔

رضا ربانی نے متعلقہ کمیٹی کو ایک ماہ کے اندر رپورٹ جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔

ایگزیکٹ کا ردعمل

دوسری جانب نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پر پاکستان کی سب سے بڑی سافٹ ویئر کمنی ہونے کا دعوی کرنے والی ایگزیکٹ نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے ردعمل میں جعلی اسناد کے کاروبارسے لاکھوں ڈالرز ماہانہ کمانے کے الزام کو ’بے بنیاد ‘ قرار دے دیا ۔

ایگزیکٹ نے الزامات پر براہ راست ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے مقامی حریف میڈیا گروپ پر نیویارک ٹائمز کے ساتھ مل کر اس کے بزنس کو متاثر کرنے کا الزام لگایا۔

کمپنی نے اپنے ردعمل میں ڈیکلن والش پرالزام لگایا ہے کہ انھوں نے’ یک طرفہ کہانی‘ گھڑتے ہوئے کمپنی کا نقطہ نظر شامل نہیں کیا۔

ایگزیکٹ نے نیویارک ٹائمز اور رپورٹ کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی کا بھی اعلان کیا جب کہ نیویارک ٹائمز کو بھیجے جانے والے ایک قانونی نوٹس کو بھی اپ لوڈ کیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ کمپنی نے ایک مقامی بلاگنگ ویب سائٹ 'پاک ٹی ہاؤس' کو بھی نوٹس بھیجا، جس نے سوشل میڈیا پر سنسنی پھیلا دی۔

نیو یارک ٹائمز نے پاک ٹی ہاؤس کو نوٹس بھیجے جانے پر بھی"Axact, Fake Diploma Company, Threatens Pakistani Bloggers Who Laugh at Its Expense" کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

خان May 19, 2015 02:28pm
پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ ہفتے پندرہ دن کے بعد ہم بڑے سے بڑا سانحہ بھول جاتے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ صبح ناشتہ کیا کیا تھا۔ زیادہ تر پاکستانیوں کا حال میرے جیسا ہی ہے۔ کچھ دن بعد لوگ نیو یارک ٹائم کی کہانی کو بھی بھول جائیں گے یا یہودو نصارا کی سازش سمجھ کر مسترد کر دیں گے۔ ابھی سے ایسی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔
Israr Muhammad Khan Yousafzai May 19, 2015 06:37pm
رپورٹ کی تحقیقات اچھی بات ھے اگر کمپنی فراڈ ھے تو کاروائی ضروری ھے لیکن اسی نیویارک ٹایمز میں چند دن پہلے پاکستان کے بارے میں رپورٹ شائع ھوئی تھی لیکن اس رپورٹ پر کوئی ردعمل سامنے نہیں ایا جو دھرے معیار کی نشانی ھے
omer khatak May 19, 2015 09:34pm
@خان