لاہور: سخت زمینی اور فضائی سیکیورٹی میں زمبابوے ٹیم پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی اور فتح کا عزم لیے یہاں قدم رکھ چکی ہے۔

مہمان ٹیم کے آنے سے عالمی کرکٹ کے ترسے پاکستانی شائقین کی آنکھوں میں ایک بار پھرامید کے دیے جگمگانے لگے ہیں۔

پاکستان پر عالمی کرکٹ کے دروازے 2001 میں 9/11 کے بعد خطے کی خراب صورتحال اور کرکٹ میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے بعد سے ہی بند ہونا شروع ہو گئے تھے لیکن اس پر کاری ضرب کاری 2002 میں اس وقت لگی جب نیوزی لینڈ کی ٹیم دورے پر پاکستانی پہنچی۔

لاہور ٹیسٹ میں انضمام الحق کی ٹرپل سنچری(جو 21ویں صدی میں کسی بلے باز کی پہلی ٹرپل سنچری بھی تھی) اور پاکستان کی بھاری مارجن سے فتح کے بعد دونوں ٹیمیں کراچی پہنچیں لیکن میچ کے آغاز سے چند گھنٹے قبل نیوزی لینڈ ٹیم کے ہوٹل کے باہر خوفناک دھماکے میں فرانسیسی انجینئرز سمیت کم از کم 14 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔

اس دھماکے کے بعد کیوی ٹیم نے دورہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وطن کی راہ لی۔

لیکن پاکستان کرکٹ کی نسبتاً بہتر صورتحال اور بورڈ میں اعلیٰ پیشہ ورانہ افراد کی موجودگی کی بدولت پاکستان کو زیادہ عرصے تک غیر ملکی ٹیموں کا انتظار نہ کرنا پڑا۔

وقت یونہی گزرتا رہا اور پاکستانی ٹیم اور بورڈ کے معاملات بدترین شکل اختیار کر گئے جبکہ دوسری جانب ہندوستانی کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی میں مکمل اجارہ داری حاصل کر لی جس کا ذمے دار کسی حد تک پاکستان بھی ہے۔

لیکن 2009 میں سری لنکن ٹیم کا دورہ پاکستان ملک میں عالمی کرکٹ کے دروازے بند کرنے کا موجب بن گیا اور اس بار بھی آغاز ایک ٹرپل سنچری سے ہی ہوا۔

پاکستانی ٹیم کے کپتان یونس خان نے کراچی ٹیسٹ میں ٹرپل سنچری اسکور کی اور بیٹنگ کے لیے سازگار پچ پر دونوں ٹیموں کے بلے بازوں نے بھرپور مشق کی جس کی وجہ سے میچ ڈرا پر منتج ہوا۔

اگلے ٹیسٹ میچ کے لیے سری لنکن ٹیم لاہور پہنچی لیکن کسے معلوم تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔

ایک بار پھر میچ کے آغاز سے چند گھنٹوں پہلے سانحہ رونما ہوا جو ملک پر کرکٹ کے دروازے بن کر گیا، المیہ یہ کہ جس ٹیم کو منت سماجت کر کے بلایا گیا اس کے سیکیورٹی روٹ پر کوئی پولیس کی گاڑی تھی اور نہ اہلکار۔

پھر ورلڈ کپ کی میزبانی ہاتھ سے گئی اور وہ جنہیں کرکٹ کھیلنا سکھائی، وہ بھی آنکھیں دکھانے لگے۔ بورڈ میں چیئرمین کی کرسی پر میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلا جانے لگا اور ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی ایک خواب بن گئی۔

اس دوران پاکستانی ٹیم اپنی تمام ہوم سیریز متحدہ عرب امارات میں کھیلنے پر مجبور ہوئی اور بورڈ کو ٹی وی حقوق اور اضافی اخراجات کی مد میں 120ملین ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

بالآخر شہریار خان کی بورڈ میں آمد ہوئی اور انہوں نے اپنی اعلیٰ سفارتی صلاحیتوں کو استعمال کر کے ناصرف ہندوستان سے بہتر کرکٹ تعلقات استور کیے بلکہ زمبابوے ٹیم کو بھی دورہ پاکستان پر رضامند کر لیا۔

ایک بار پھر غیر ملکی ٹیم کی آمد سے چند دن قبل دہشت گردی کی کارروائی سے دورے خطرے میں پڑ گیا لیکن بورڈ نے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔

اب زمبابوے کی ٹیم پاکستان پہنچ چکی ہے لیکن پاکستان کو یہ دورہ بھی کافی مہنگا پڑا کیونکہ پی سی بی کو زمبابوے کو 10 لاکھ ڈالر سے زائد ادا کرنا ہوں جس میں سے آدھے کھلاڑیوں کی میچ فیس اور اخراجات پر صرف ہوں گے۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسپانسرز اور ٹکٹس کی فروخت سے ان اخراجات پر قابو پانا ناممکن نظر آتا ہے۔

لیکن درحقیقت پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے لیے یہ بھی مہنگا سودا نہیں کیونکہ اگر چند ملین ڈالرز سے ملک میں کرکٹ کی رونقیں لوٹ سکتی ہیں تو یہ کسی طور پر مہنگا سودا نہیں بلکہ اس سلسلے میں حکومت کو بھی بورڈ کی مکمل مدد کرنی چاہیے۔

یہ دورہ متعدد پاکستانی کھلاڑیوں کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ کئی انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کے باوجود اب تک اپنے ملک کے شائقین کے سامنے کارکردگی نہیں دکھا سکے۔

عمر اکمل، اسد شفیق اور ایک روزہ ٹیم کے کپتان اظہر علی ان بدقسمت کھلاڑیوں میں شامل ہیں جو گزشتہ چار، پانچ سال سے قومی ٹیم کا حصہ ہیں لیکن ملک میں عالمی کرکٹ نہ ہونے کے سبب اس اعزاز سے محروم ہیں۔

بہرحال زمبابوے کی آمد کے ساتھ ہی ملک میں عالمی کرکٹ کے در کھل چکے ہیں لیکن یہ دروازے ہمیشہ کیلئے اسی وقت کھل سکتے ہیں اگر ہم ملک میں سیکیورٹی مسائل پر قابو پائیں۔

لیکن اس سے زیادہ اہم چیز یہ کہ اپنی کرکٹ کو مضبوط کرنا ہو گا کیونکہ اسی صورت میں بڑی ٹیمیں ہم سے کھیلنے کے لیے متمنی اور ہمارے ملک آںے میں دلچسپی ظاہر کریں گی بصورت دیگر ہمیں مزید پستیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں