ریلوے زوال کے بعد عروج کی جانب؟

21 مئ 2015
ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کے پہنچنے کا منظر — اے ایف پی فائل فوٹو
ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کے پہنچنے کا منظر — اے ایف پی فائل فوٹو
اگر آپ کسی ٹرین کو تاخیر سے آتے دیکھیں تو اپنی گھڑی کو درست کرلیں— وائٹ اسٹار فوٹو
اگر آپ کسی ٹرین کو تاخیر سے آتے دیکھیں تو اپنی گھڑی کو درست کرلیں— وائٹ اسٹار فوٹو

کراچی : " اگر آپ کسی ٹرین کو تاخیر سے آتے دیکھیں تو اپنی گھڑی کو درست کرلیں "، یہ وہ جملہ تھا جو ایک اسمارٹ نوجوان قلی نے پلیٹ فارم پر افراتفری میں کہا " آج کل ٹرینیں تاخیر سے نہیں پہنچتیں"۔

ہم حال ہی میں راولپنڈی سے کراچی آنے کے لیے تیز گام پر سوار ہوئے۔ ٹھیک ساڑھے 8 بجے اس کی سیٹی بجی اور اس کے کچھ سیکنڈ بعد ہی ٹرین نے آگے بڑھنا شروع کردیا۔ ایک رشتے دار نے مجھے ٹرین کا سفری ٹائم ٹیبل ایس ایم ایس کیا تھا اور متعدد سٹیشنز پر ٹرین کی آمد کے موقع پر میں نے اسے چیک کیا اور ہر جگہ ہی وہ شیڈول سے پہلے پہنچتی نظر آئی۔

اس بات نے مجھے ٹائم ٹیبل کے حقیقی ہونے پر شکوک میں مبتلا کردیا، یہی وجہ ہے کہ ملتان پہنچنے کے بعد میں نے ایک پھیری والے سے پوچھا کہ ٹرین یہاں کتنی دیر تک رکے گی تو اس کا جواب تھا " یہ یہاں آدھے گھنٹے کھڑی رہے گی سر آپ فکرمند مت ہو"۔

اس نے مزید کہا " ابھی بھی یہ ٹرین شیڈول سے پندرہ منٹ پہلے پہنچی ہے"۔

جب ٹرین کراچی کے لانڈھی اسٹیشن پر پہنچی تو ٹائم ٹیبل کے لحاظ سے ایک گھنٹہ قبل ہی یہاں پہنچ گئی تھی۔

ٹرینوں کی آمد و رفت ہمیشہ ہی سنگین مسئلہ رہا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے کسی ٹرین کی بروقت آمد خلاف قاعدہ سمجھی جاتی تھی اور اگر ٹرین اپنے مقررہ وقت سے کچھ گھنٹے تاخیر سے پہنچتی تو بھی لوگ مطمئن رہتے۔ ہمیشہ کی اس تاخیر کے لیے ڈرائیور کے اندر اوور ٹائم کے لالچ کو الزام دیا جاتا جو کہ دانستہ طور پر مسافروں کے قیمتی وقت کے عوض کماا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ٹھیک ہو یا نہ بھی ہو مگر ماضی میں ٹرینوں کی تاخیر ایک عام رجحان تھا، تاہم دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد لاتعداد بوگیوں اور انجنوں کی تباہی نے ریلوے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔

گزشتہ حکومت جب تک موجود رہی ریلوے اس بدقسمتی کے چکر سے باہر نہیں نکل سکا۔ سابق وزیر ریلوے غلام احمد بلور خود بھی ریلوے کے مستقبل سے مایوس تھے اور انہوں نے قرار دے دیا تھا کہ نظام تباہ ہوچکا ہے اور وہ اسے دوبارہ زندہ نہیں کرسکتے۔

ناقدین نے اس موقع پر الزامات لگانا شروع کردیئے تھے کہ وفاقی وزیر کا چونکہ اپنا ٹرانسپورٹ کا کاروبار ہے اس لیے وہ دانستہ طور پر ریلوے کو تباہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

جو کچھ بھی ہو تاہم ٹرینیں تاخیر کا شکار ہورہی تھین کچھ مواقعوں پر تو یہ معاملہ گھنٹوں کی بجائے دنوں تک پھیل گیا۔ ایسے ہی ایک بدقسمت واقعے میں ایک ٹرین کراچی سے راولپنڈی 26 گھنٹے کی بجائے ایک ہفتے بعد پہنچی۔ ریلوے اسٹیشنوں میں انتظار کرنے والے افراد کو اکثر کہا جاتا تھا کہ ٹرین ابھی راستے میں ہے اور جب وہ کئی گھنٹے تاخیر سے پہنچتی تو اسے واشنگ یارڈ میں لے جایا جاتا جس کے بعد وہ پلیٹ فارم پہنچ کر مسافروں کو اٹھاتی۔

بہت زیادہ تاخیر کی بتائی جانے والی وجوہات متعدد تھیں جیسے ایندھن کی کمی، انجن کا بریک ڈاﺅن، اضافی انجنوں کی عدم دستیابی وغیرہ۔ ان سب عوامل کی وجہ سے اکثر سفر کرنے والے افراد نے دیگر ذرائع خاص طور پر بسوں کو ترجیح دینا شروع کردیا جن کا کاروبار اس وقت سے پھل پھول رہا ہے اور ان کی جانب سے زبردست سہولیات اور آسائشات فراہم کی جاتی ہیں جیسے مفت کولڈ ڈرنکس، اسنیکس جنھیں خواتین اٹینڈنٹس پیش کرتی ہیں، ایئرکنڈیشنڈ ماحول اور فلمیں وغیرہ، مگر اب یہ رجحان دوبارہ ریورس ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ ٹرینیں ایک بار پھر ٹریک پر آگئی ہیں۔

وزیراعظم کی جانب سے گزشتہ جمعے کو ایک نئی ٹرین گرین لائن کا افتتاح اس کا ثبوت ہوسکتا ہے۔ ریلوے حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ ٹرین نہ صرف سینٹرلی ائیرکنڈیشنڈ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ " پورے راستے کے لیے وائی فائی کنکشن، تین وقت کا کھانا، چائے، منرل واٹر، اخبارات اور سونے کے لیے معیاری سہولت " وغیرہ مسافروں کو اسلام آباد سے کراچی کے درمیان سفر میں فراہم کی جائیں گی۔

ٹائمنگ ہی واحد شعبہ نہین جس میں ٹرینوں نے کچھ بہتری دکھائی ہے، پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کی سہولیات میں بھی ماضی کے مقابلے میں نمایاں بہتری آئی ہے اور پورے سفر کے دوران کم از کم ایک بار ٹرینوں کی صفائی ہوتی ہے۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران بڑھتے کرایوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے کراچی سے راولپنڈی کے درمیان اے سی سلیپر کا ٹکٹ 6300 کا پڑتا تھا مگر اب وہ 4700 کا ہوگیا ہے۔ اسی طرح اس سے پہلے اسٹیشنوں میں قلی حضرات کی جانب سے ان تمام افراد کو فراہم کی جاتی تھی جو اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو، تاہم ان کے کردار میں نمایاں تبدیلی کرپٹ حکام کے ایجنٹوں کے باعث آئیں جو ٹکٹوں کو بلیک مارکیٹ میں سرخ قمیضوں میں ملبوس اس افراد کی مدد سے فروخت کرتے۔ اب وہ صرف مسافروں کا سامان اٹھانے میں اور ان کی پہلے سے ریزور نشستوں تک پہنچانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ ٹکٹوں کی بلیک مارکیٹنگ اب بہت کم رہ گئی ہے یہاں تک کہ قلیوں کی جانب سے بھی سامان اٹھانے کے آفیشل ریٹس چارج کیے جاتے ہیں، تاہم بشیتر مسافر اس سے واقف نہیں یا اس کی پروا نہیں کرتے اور مول تول میں لگ جاتے ہیں۔

ٹرینیں اب زیادہ آرام دہ ہیں جن کی زیادہ تر بوگیاں چین سے درآمد کی گئی ہیں، بروقت پہنچنے کے ساتھ وہ کچھ مواقعوں پر پرآسائش بھی ثابت ہوتی ہیں۔ جی ہاں انہیں اے سی سیلپرز کہا جاتا ہے جو متعدد کمپارٹمنٹس میں چار، تین اور دو مسافروں کے لیے دستیاب ہوتے ہیں۔

بیشتر افراد اس کا کریڈٹ موجود حکومت کو دیتے ہیں۔ سوئی گیس کمپنی کے ایک عہدیدار افتخار حسین کے مطابق " وزیر سعد رفیق اس بہتری کے لیے صحیح معنوں میں ستائش کے مستحق ہیں"۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ہوائی سفر کا بار نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہی بہت زیادہ دیر تک کسی بس میں بیٹھ سکتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے ایک حامی محمد طفیل کا نکتہ نظر الگ ہے " اس کا کریڈٹ پی ٹی آئی کو جاتا ہے، اگر عمران خان کا دھرنا نہ ہوتا تو یہ حکومت اپنے اولین چار برسوں میں بھی عوام کے لیے کچھ نہ کرتی"۔

اس کا کریڈٹ چاہے وزیر سعد رفیق کے پاس جائے، پی ٹی آئی کے دھرنے، اندرونی و بیرونی صورتحال میں تبدیلی یا چینی معاونت کو مسافروں کو کوئی پروا نہیں۔ وہ تو صرف آرام دہ، قابل بھروسا اور سفر کا سستا ذریعہ جانتے ہیں اور ایسا نظر آتا ہے کہ انہیں وہ مل گیا ہے۔

گرین لائن ٹرین کے ٹریک پر آنے کے بعد میں دارالحکومت اور وہاں سے واپسی کے سفر سے لطف اندوز ہونے کا سوچ رہا ہوں جس میں وی آئی پی ٹریٹمنٹ ملے گا۔

حکومت کا جوش و خروش ثابت کرتا ہے کہ بزنس ٹرین اور شالیمار ایکسپریس کے ذریعے نجکاری کا عمل عوام کے حق میں نہیں۔ نجکاری صرف کرایوں میں اضافے کا بوجھ ہی بڑھاتی ہے اور اس میں کوئی اکنامی کلاس نہیں، جبکہ بیشتر پاکستانی صرف اس کے ہی متحمل ہوسکتے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Sharminda May 21, 2015 05:18pm
Wait for now next PPP government.