پہلی پاکستانی اینیمیٹڈ فلم '3 بہادر' کیوں دیکھنی چاہیے؟

اپ ڈیٹ 26 مئ 2015
موبائل فون کو چھیننا، منی لانڈرنگ، پانی کی قلت اور چوریوں جیسی آفات ہر ایک کو اپنے ارگرد کے حالات یاد دلاتی ہیں۔
موبائل فون کو چھیننا، منی لانڈرنگ، پانی کی قلت اور چوریوں جیسی آفات ہر ایک کو اپنے ارگرد کے حالات یاد دلاتی ہیں۔

اسکرین پر نیکی اور برائی کے درمیان جنگ تو ہمیشہ سے ہی چلی آرہی ہے اور ہیروز ہمیشہ ہی کامیابی حاصل کرتے ہوئے طاقتور و بے رحم ولن کو چت کردیتے ہیں۔

ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں اور ہم نے اسے لاتعداد بار فلموں میں دیکھا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم اسے ایک بار دیکھنا چاہتے ہیں وہ بھی شرمین عبید چنائے اور وادی اینیمیشن کی جانب سے بنائی جانے والی پاکستان کی پہلی اینیمیٹیڈ فلم تین بہادر میں؟

ہر وہ فرد جو ایک اچھی، بہترین طریقے سے بیان کردہ کہانی کو پسند کرتا ہے، کے لیے اس کا جواب ہاں ہوگا، کراچی میں اس فلم کے پریمئیر کے لیے جمع ہونے والا مجمع تو اس بات سے متفق نظر آتا تھا۔

تین بہادر کا بنیادی خیال تو وہی اچھے اور برے کے درمیان جنگ ہوسکتا ہے مگر اس کا پلاٹ بذات خود کافی گھما پھرا کر مزاح، گانوں اور ایکشن کے تڑکے کے ساتھ پیش کیا گیا اور اسی لیے یہ بوسیدہ یا دقیانوسی نظر نہیں آتا۔ بہترین سانچے، محتاط تعمیر اور اردو کے اچھے ڈائیلاگز سے سجی یہ فلم صرف بچوں کے لیے ہی تفریح فراہم نہیں کرتی بلکہ بالغ افراد بی اس سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

تین بہادر میں کامل، سعدی اور آمنہ تین ' بہادر' بچے ہیں جو ایک غنڈے ' منگو' کے خلاف جدوجہد کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ' منگو' کو بابا بالام کی جانب سے شیطانی قوتوں کے ذریعے مدد فراہم کی جاتی ہے اور اس کی معاونت غنڈوں کا ایک گروپ کرتا ہے۔ یہ سب مل کر افسانوی شہر ' روشن بستی' میں تباہی مچادیتے ہیں، لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار اس وقت تک گرم رکھتے ہیں جب تک یہاں کے باسی اس کا نام ' اندھیر نگری' نہیں رکھ دیتے۔

کامل، سعدی اور آمنہ کی شجاعت انہیں ماورائی طاقتیں اپنی مدد آپ کے تحت حاصل کرنے کی جانب مائل کرتی ہے اور برے لوگوں کے خلاف جنگ شروع کردیتے ہیں اور یہ حصہ پرمزاح اور ایکشن سے بھرپور مناظر سے بھرا ہے۔ جو کچھ ہونا ہے اس کی پیشگوئی تو سب ہی کرسکتے ہیں مگر کیا چیز اس فلم کو مختلف بناتی ہے۔ ایک دیوقامت غنڈہ جو تفریح کے لیے رقص کی مشق کرتا ہے اور آپ کو ہنسنے پر مجبور کردیتا ہے، بچوں کی حاضر جوابی تفریح سے بھرپور ہے اور جب ہیروز منگو کا تختہ الٹنے کی جدوجہد کررہے ہوتے ہیں تو والدین کا کرب جذباتی کردیتا ہے۔ فلم کے کرداروں کی وائس اوور بہترین ہے اور کردار محدود ضرور ہیں مگر دلچسپ ہیں یعنی ایسے بچے جو اسکولوں کے عام طالبعلموں سے اپنے مشکلات سے دوچار قصبے کو بچانے کے لیے سپرہیروز میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

تاہم اس فلم کو صرف اینیمیشن کے لیے خاص نہ سمجھا جائے۔ سب نے ہی ہولی وڈ کی تھری ڈی اینیمیشن فلمیں دیکھی ہوں گی جس میں عام افراد جیسے کارٹون کرداروں کو دکھانے کی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جاتا ہے اور پاکستان کی پہلی اینیمیشن فلم کا اس سے موزانہ نہیں کیا جاسکتا۔

کرداروں کے چلنے کا انداز زیادہ اچھا نہیں اور ویژول بھی زیادہ خوشگوار نہیں تاہم ہولی وڈ میں بڑے بجٹ کے ساتھ کام کیا جاتا ہے جبکہ اینیمیشن کے شعبے میں برسوں کی تحقیق اور ترقی کے بعد بہتری آئی ہے، ہمیں اس میدان میں کافی فاصلہ طے کرنا ہوگا۔

تاہم کچھ مقامی ناظرین جو ہولی وڈ کی اینیمیشن فلمیں دیکھتے رہتے ہین وہ تین بہادر سے مایوس نہیں ہوں گے۔

تین بہادر کے ولنز
تین بہادر کے ولنز

اس فلم کو بنانے والوں نے ہوسکتا ہے کہ خامیاں کی ہوں کیونکہ یہ اینیمیشن کے میدان میں ابتدائی قدم ہے مگر انہوں نے اسے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے والے ساﺅنڈ ٹریک اور ایک اچھے پلاٹ کے ساتھ تیار کیا ہے جو دیکھنے والوں کو پورے 90 منٹ تک اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں۔

اندھیر بستی کے باسیوں کو منگو کے ہاتھوں موبائل فون کو چھیننا، منی لانڈرنگ، پانی کی قلت اور چوریوں جیسی جن آفات کا سامنا ہوتا ہے وہ بالکل آج کے کراچی میں لاقانونیت کے منظرنامے سے میل کھاتی ہیں۔

فلم کا یہ خیال زبردست ہے جب بدمعاش آپس میں بات چیت کررہے ہوتے ہیں " لوگوں کو معمولی مسئلوں میں الجھا دو تو انہیں بڑی باتوں کا پتا نہیں چلا"۔ اس کے اندر چھپا پیغام بالکل واضح ہے کہ یہ وہ وقت ہے جب ہماری قوم کو روزمرہ کی مشکلات کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بڑے مسائل کو جاننا چاہئے اور ہمت جمع کرکے اپنے ارگرد موجود منگوز کو نکال باہر کردینا چاہئے۔

تین بہادر کے ڈائیلاگ بہترین اردو پر مبنی ہونے کے باعث ایک اور خوبی ثابت ہوتے ہیں، کچھ حالیہ پاکستانی فلموں میں انگلش کا استعمال بہت زیادہ کیا گیا جس نے بڑی تعداد میں فلم بینوں کو ان کا مخالف بنادیا۔ تین بہادر اردو زبان میں ہے اور یہ باعث فخر ہے، اس کے چٹکلے اور پیغامات صرف بالائی طبقے کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے ہیں۔

فلم کے پریمئیر پر تین بہادر کے مسکوٹ— فوٹو زویا انور
فلم کے پریمئیر پر تین بہادر کے مسکوٹ— فوٹو زویا انور

شرمین عبید چنائے خود بھی اس حوالے سے ٹیلیویژن پر ہر جگہ نظر آئیں، یعنی مارننگ شوز اور یہاں تک کہ گیم شوز میں بھی جہاں لوگ موٹرسائیکلیں اور سونا وغیرہ جیتنے کے لیے آتے ہیں۔ اس تشہیر نے فلم کے حوالے سے جوش و خروش کافی بڑھا دیا تھا اور اس کے آغاز پر سینماﺅں میں رش کی ضمانت دی جاسکتی ہے بعد میں یہ اپنے بل پر مزید لوگوں کو اپنی جانب کھینچ سکتی ہے۔

اس فلم کے لگ بھگ ہر سین میں اسپانسرز کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی، یہ بات قابل فہم ہے کہ فلم کی تیاری ایک مہنگا کام ہے اور اچھا امر ہے کہ انگلش بسکٹ مینوفیکچرز (ای بی ایم) سمیت کئی بڑے اسپانسر نے اکھٹے ہوکر تین بہادر کو سپورٹ کیا، مگر ہر سین میں اسپانسنرز کو دکھانے سے تھوڑا سا منفی تاثر ملتا ہے۔

آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے ایک قابل اعتبار نام ہے چاہے یہ ان کا اینیمیٹیڈ فلموں کا آغاز ہی کیوں نہ ہو۔ فلم کے پوسٹرز اور بل بورڈ وغیرہ پر ان کا نام اسپانسر کو کھینچنے کے لیے کافی تھا۔ مسلسل اشتہاری مہم نے ایک اچھی کہانی کے تفریحی معیار کو کم کردیا۔

تاہم یہ فلم دیکھنے کے قابل ہے جس میں شرمین عبید چنائے نے پرذہانت انداز سے ڈاکومینٹری میکر سے مقامی سینما میں اینیمیشن کا آغاز کیا، اس میں موجود پیغامات کے لیے، اس میں چھپی ہنسی اور ایکشن کے لیے۔ اس نے مستقبل میں بہتر اینیمیشن کام کے لیے میدان بنا دیا ہے اور ' بہادری' کو پروموٹ کیا ہے تاکہ مضبوط اور بہتر پاکستان کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ وہ پیغام ہے جس سے ہم کبھی بیزار نہیں ہوسکتے۔

تبصرے (0) بند ہیں