واشنگٹن: صدر بارک اوباما نے اہم عراقی علاقوں کے دولت اسلامیہ(داعش) کے قبضے میں جانے کو ’حکمت عملی کی سطح پر ایک دھچکا‘ قرار دیتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ وہ داعش کے خلاف جنگ نہیں ہار رہے۔

بغداد کے نزدیک عراقی اقلیت کا قلب سمجھے جانے والے شہر رمادی پر داعش کے قبضے کے کچھ دنوں بعد جمعرات کو شائع ہونے والے نیوز میگزین دی اٹلانٹک کے ساتھ ایک نشست کے دوران اوباما نے کہا’مجھے نہیں لگتا کہ ہم ہار رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا ’بلاشبہ ہمیں ٹیکٹیکل دھچکہ ضرور پہنچا ہے لیکن رمادی شہرکافی عرصہ سے غیر محفوظ تھا‘۔

اوباما کے احکامات پر اگست، 2014 کے بعدسے امریکی قیادت میں اتحادی فوج عراق اور شام میں فضائی کارروائی کے دوران چھ ہزار سے زائد داعش کے اہداف کو نشانہ بنا چکی ہے۔

اوباما نے عراق میں لڑاکا فوج دوبارہ بھیجنےسے انکار کر دیا ہے، لیکن رمادی پردہشت گر دگروپ کے قبضہ کے بعد امریکی حکمت عملی اور عراقی حکومت کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگائے جا رہے ہیں۔

اوباما عراقی فوج میں تربیت کی کمی کو اصل وجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں’وہ رمادی میں ایک سال سے موجود تھے لیکن اپنے قدم نہ جما سکے‘۔

کئی مبصرین کے خیال میں امریکی فضائی قوت کی مسلسل مدد کے باوجودعراقی فوج تربیت یافتہ اور انتہائی پرجوش دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتی ۔

واشنگٹن اور بغداد ہچکچاتے ہوئے داعش کے خلاف لڑائی میں نسلی اور مذہبی ملیشیا کو استعمال کرنے کے حق میں نظر آنے لگے ہیں۔

امریکا نے عراقی کی مرکزی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ انبار صوبے میں سنی قبائلیوں کو ساتھ ملائے،جس پر شیعہ اکثریتی حکومت ہچکچا رہی ہے۔اے ایف پی

تبصرے (0) بند ہیں