اسلام آباد: لاہور کے لیے 165 ارب مالیت کے ایک اہم منصوبے کے خلاف منصوبہ بندی کمیشن نے بڑی تعداد میں سخت اعتراضات کیے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ لیکن منصوبہ بندی کمیشن اس منصوبے کی منظوری سے قبل کسی قسم کی تبدیلی کو برقرار نہیں رکھ سکا۔

واضح رہے کہ 27 کلومیٹر طویل لاہور اورنج میٹرو لائن ٹرین وزیراعلیٰ شہباز شریف کی ذہنی کاوش کا نتیجہ ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس کی قانونی اور ضابطے کی کارروائیوں کی تکمیل ہونے ابھی باقی تھی، پھر بھی چینی وزیراعظم ژی جن پنگ کے پاکستان کے وزٹ کے دوران حکام نے چینی کنٹریکٹر کے ساتھ اس کے معاہدے پر دستخط کردیے تھے۔

منصوبہ بندی کمیشن کے ایک عہدے دار نے کہا ’’ہمیں ربر اسٹمپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔‘‘

انہوں نے ڈان کے ساتھ اس منصوبے کے سرکاری ریکارڈ کا اشتراک کرتے ہوئے کہا کہ فزیبیلٹی رپورٹ سمیت اہم دستاویزات کمیشن کو فراہم نہیں کی گئی تھیں۔

مذکورہ عہدے دار نے کہا کہ کمیشن کو دستاویزات جمع کرانے سے لے کر سینٹرل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی سے مجوزہ منصوبے کی ٹیکنیکل تشخیص لینے اور قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی سے اس کی منظوری حاصل کرنے کا یہ پورا عمل پندرہ دنوں سے بھی کم مدت میں مکمل کرلیا گیا۔

نتیجے میں منصوبہ بندی کمیشن کے حکام کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ تاہم انہوں نے تحریری طور پر اہم دستاویزات طلب کی تاکہ اس منصوبے کی تیاری اور منظوری کے عمل کو مکمل کیا جائے۔ مثلاً اثرات اور نتائج، کارکردگی کے اشاریے، ٹھوس نتائج یا تقسیم کے قابل اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے نتائج کمیشن کو جمع کرائی گئی پی سی ون میں شامل نہیں کیے گئے تھے۔

منصوبہ بندی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی اقتصادی کونسل کے ایک فیصلے کے مطابق تیس کروڑ روپے سے زیادہ لاگت کے تمام منصوبوں کی مناسب فزیبیلیٹی رپورٹ تیار کی جانی چاہیے۔ ابتدائی پی سی-ون میں ایک باقاعدہ تازہ ترین فزیبیلیٹی مطالعے کی رپورٹ کی کمی ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ کمیشن کو بتایا گیا تھاکہ صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت سے منظوری حاصل کیے بغیر اس منصوبے کی انجینئرنگ، خریداری اور تعمیر (ای سی پی) پر عملدرآمد کے لیے چینی کنٹریکٹر کے ساتھ ایک معاہدے پر پہلے ہی دستخط کردیے تھے۔

معیاری طریقہ کار کے تحت ضروری ہے کہ ایک ترقیاتی منصوبے کی مجاز اتھارٹی سے منظوری کے بعد ہی اسپانسرنگ ایجنسی ٹینڈر کے عمل کا آغاز کرسکتی ہے۔لیکن اس معاملے میں اس کے برعکس عمل کیا گیا۔

یہاں تک کہ چینی حکومت کےساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے گئے اس کے فریم ورک کا منصوبہ بندی کمیشن کے ساتھ اشتراک نہیں کیا گیا۔

منصوبہ بندی کمیشن نے نشاندہی کی کہ اس منصوبے کے لیے چین سے لیا جانے والا 1.63 ارب ڈالرز کا قرضہ بیس سال کی مدت میں بیس قسطوں کے ذریعے ادا کیا جانا تھا۔

لیکن سود اور ادا کیے جانے والے دیگر اخراجات کی لاگت قرضے کی رقم سے 45 فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے۔

جب حکومتِ پنجاب کے ایک عہدے دار سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ وفاقی حکومت کے سرکاری ترقیاتی پروگرام کا حصہ نہیں ہے اور اس کی پوری رقم کی ادائیگی صوبائی حکومت کی جانب سے کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح منصوبہ بندی کمیشن کو تمام تفصیلات فراہم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ صوبائی حکومت خود ان خدشات کا خیال رکھے گی۔

ان کاکہنا تھا کہ اس منصوبے میں غیرملکی زرمبادلہ کا حصہ اس کی کل لاگت سے 25 فیصد سے زیادہ تھا، اس لیے کہ وفاقی حکومت کی منظوری محض ایک ضابطے کی کارروائی تھی۔ اس کے علاوہ اقتصادی امور کا ڈویژن اس معاملے سے مکمل طور پر باخبر تھے۔

چینی کنٹریکٹر کے تخمینے کے مطابق اس منصوبے کے مکمل یونٹس کی لاگت فی کلومیٹر 6 ارب روپے تھی، اور سالانہ متوازی اخراجات اور آمدنی سمیت اس منصوبے کی پائیداری کے سلسلے میں منصوبہ بندی کمیشن کو تاریکی میں رکھا گیا۔

کمیشن ای سی پی کنٹریکٹر کے انتخابی عمل سے بھی مطمئن نہیں تھا۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے لاہور ریپڈ ماس ٹرانزٹ سسٹم نیٹ ورک رپورٹ میں گرین لائن 2025ء میں 6 لاکھ 60 ہزار مسافروں کے لیے اور اس کے برعکس اورنج لائن میں 4 لاکھ پچانوے ہزار مسافروں کے لیے سہولت پیش کی تھی، لیکن پھر بھی اورنج لائن کو ترجیح دی گئی۔

تبصرے (2) بند ہیں

Ahmad May 25, 2015 12:23pm
پلاننگ کمشن کا نام اعتراض کمشن رکھ دینا چاہیے۔ خود کچھ کرتے نہیں اور کو ئی کرے تو اعتراض۔ اگر یہ کمشن کام کر رہا ہوتا تو آج بجلی کا بحران نا ہوتا۔ بنیادی انفرا سٹرکچر سیاستدانوں کی نہیں بیوروکریٹس کی ذمہ داری ہے۔
عادل عمر May 25, 2015 08:26pm
ہو گا وہی جو میاں شبہاز شریف کی مرضی ہوگی ۔ شبہاز شریف اور نواز شریف کے بارے میں ریاست کے تمام ادارے ’’نامعلوم وجہ سے ‘‘ چپ ہیں۔ مجھے تو کئی دفعہ لگتا ہے ۔ کہ پاکستان کو کچھ عرصہ کے لئے شریف کمپنی نے ٹھیکہ پر حاصل کیا ہوا ہے ۔ اس لئے یہاں صرف ان کی مرضی چلتی ہے