انسان، خدا، اور شیطان

اپ ڈیٹ 25 مئ 2015
جیسے ہی شیطان اس کے اندر داخل ہوا، اس کی نظر بچی کے چہرے سے نیچے اترنے لگی۔ — Creative Commons
جیسے ہی شیطان اس کے اندر داخل ہوا، اس کی نظر بچی کے چہرے سے نیچے اترنے لگی۔ — Creative Commons

یہ آلوک کمار ساتپوتے کے افسانچوں کی تیسری قسط ہے۔ گذشتہ افسانچے یہاں پڑھیں۔


تصور

ٹرین میں بیٹھے اس انسان نے اپنی سامنے والی سیٹ کی طرف دیکھا۔ وہاں پرایک پیاری سی بچی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ اس معصوم کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہا، اور سوچتا رہا کہ بچے واقعی میں خدا کا روپ ہوتے ہیں۔ ادھر اپنی طرف دیکھتے ہوئے اس انسان کی شفقت بھری نظروں سے بچی بھی خوش ہو کر مسکراتی رہی۔ اس طرح ایک انسان اور خدا آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔

انسان اور خدا کو ساتھ بیٹھا دیکھ کر شیطان کا خون کھولنے لگا، اور وہ اس انسان میں داخل ہوگیا۔ اب وہ انسان، انسان سے ایک مرد بن گیا، اور اس کی نظر اس بچی کے چہرے سے دھیرے دھیرے نیچے اترنے لگی۔ انسان کے اس بدلے ہوئے روپ کو دیکھ کر بچی کی آنکھوں میں خوف اترنے لگا، اور وہ لاپرواہ بیٹھی بچی کپڑے درست کرنے لگی۔

تھپڑ

اس بس اسٹینڈ میں تین رحمدل شخص اور ایک کہیں سے بھی رحمدل نہیں لگنے والا شخص بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک بڑھیا اپنے دونوں بیٹوں کے پاگل ہونے کی وجہ سے دانے دانے کو محتاج ہونے کی جانکاری (معلومات) دیتے ہوئے رونے لگی۔ اس پر پہلے رحمدل نے کہا: ”تم لوگ بھوکے مررہے ہو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری سرکار (حکومت) نکمی ہے۔ میں اس بات کو ہمارے صوبے کی اسمبلی اور قومی اسمبلی تک لے جاؤں گا۔“

دوسرے رحمدل نے کہا: ”یہ تمہارے گاؤں والوں کے لیے شرم کی بات ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے ایک خاندان بھوک سے مر رہا ہے۔“

تیسرے رحمدل نے کہا: ”بھائی اب رونا دھونا بند کرو۔ میں بڑا ہی جذباتی قسم کا آدمی ہوں۔ تمہیں روتا دیکھ کر مجھے بھی رونا آ رہا ہے۔“

چوتھا شخص ان کی باتیں سنتا رہا اور پھر اٹھ کروہاں سے چلا گیا۔ اس پر ایک رحمدل نے کہا: ”دیکھو تو لوگ تسلی کے دو لفظ بھی نہیں بول سکتے۔“

کچھ دیر بعد وہ شخص ایک تھیلے میں دس کلو چاول لے کر آیا اور بڑی ہی خاموشی سے اس نے تھیلا اس بڑھیا کے سپرد کر دیا۔ یکایک ان تینوں رحمدلوں کا ہاتھ اپنے اپنے گالوں تک پہنچ گیا۔ انہیں ایسا لگا جیسے کسی نے انھیں زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیا ہو۔

اپنی اپنی باری

کسی محلے کے ایک حصے میں تین کتے رہتے تھے۔ جس میں سے پہلا پلے سے کچھ بڑے قد کا، دوسرا منجھلے قد کا، اور تیسرا فل سائز کا تھا۔

ایک بار سب سے چھوٹے قد کے کتے کو کہیں سے ایک ہڈی پڑی ہوئی مل گئی۔ وہ اس سے کھیلتے کھیلتے گھومنے لگا، تبھی منجھلے قد کے کتے کی نظر اس پر پڑی۔ بس پھر کیا تھا، وہ اس پر چڑھائی کر بیٹھا۔ چھوٹے کتے کو بھی شاید اپنی اوقات معلوم تھی، تبھی تووہ دم دبا کر خود حوالگی کی ادا میں اس منجھلے کا منھ چاٹنے لگا، جیسے کہہ رہا ہو، حضور! اسے تو میں آپ کے لیے ہی لا رہا تھا۔

اس کی اس حالت پر منجھلے نے فلسفی کے سے انداز میں اپنے کان کھڑے کر لیے، جیسے سوچ رہا ہو، مار دیا جائے یا چھوڑ دیا جائے۔

خیر جو بھی ہو، ہڈی اب منجھلے کے قبضے میں تھی۔ اتنے میں تیسرا فل سائز کا کتا گھومتا ہوا ادھر آ نکلا۔

اب منجھلے کی باری تھی۔

ازدواجی زندگی

بیوی: کچن کے کاموں میں آپ میری ذرا بھی مدد نہیں کرتے، …… ارے اور کچھ نہیں تو سبزی تو کاٹ ہی سکتے ہیں۔

(اگلے دن)

ارے یہ کیا؟ میں نے آپ سے کب کہا تھا سبزی کاٹنے کو۔ بھلا بینگن ایسے کاٹتے ہیں؟ آئندہ کچن میں مت گھسنا۔ عورتوں کا کام عورتوں کو ہی ساجھے۔

بیکار

”یار میرا ایک دوست بڑا ہی قابل ہے، لیکن آج تک بے روزگار ہے۔ اس کی مالی حالت بھی بہت خراب ہے۔ اسے کہیں نوکری پر تو لگوا دو۔“ ایک دوست نے اپنے کریئر بنا چکے دوست سے اپنے کسی دیگر دوست کی سفارش کرتے ہوئے کہا۔

”اچھا اس کی عمر تقریباً کتنی ہوگی؟“ اس دوست نے سوال کیا۔

”تقریباً تیس اکتیس سال کا تو ہو چکا ہوگا۔“ اس نے جواب دیا۔

”جو شخص تیس اکتیس سال کا ہوچکا اور اب تک بے روزگار ہو وہ کیا خاک قابل ہے؟ اور اگر وہ کبھی قابل رہا بھی ہوگا تو بھی اب تک اس کی قابلیت میں زنگ لگ چکا ہوگا۔ ایسے میں میں اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔“ کریئر بنا چکے دوست نے سیدھا سا جواب دیا۔

اندھا

آفس پہنچنے کی جلدی میں وہ تیز تیز قدموں سے فٹ پاتھ پر چلا جا رہا تھا کہ اچانک ایک شخص سے ٹکرا گیا۔ اپنی غلطی اس پر تھوپنے کی غرض سے اس نے الٹا اسے ہی ڈانٹنا شروع کر دیا: ”اندھے ہو کیا؟ دیکھ کر نہیں چل سکتے؟“

”معاف کیجیے بھائی صاحب، میرا دھیان کہیں اور تھا، پر صاحب میں اندھا نہیں ہوں۔“ اس شخص نے کانپتے ہاتھوں سے اپنی چھڑی اور کالا چشمہ ٹٹولتے ہوئے کہا۔

درد

زچگی کے لیے اسٹریچر پر جاتی بیوی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس نے کہا: ”کل پھلکے بناتے وقت انگلی جل جانے کے درد میں تم رات بھر روتی رہی، اور اب تو تم درد کے سمندر میں غوطہ لگانے جارہی ہو، مجھے تو تمہاری بہت فکر ہو رہی ہے۔“

”کل انگلی جلنے پر ہوئے درد کے لیے تو میں ذہنی طور پر تیار نہیں تھی، جبکہ آج اور آگے جو درد ہونا ہے، اس کے لیے میں تو بچپن سے ہی ذہنی طور پر تیار ہوگئی تھی۔ دونوں قسم کے درد میں فرق ہے۔ جہاں ایک میں تکلیف کا احساس ہوتا ہے، تو وہیں دوسرے میں راحت کا، آپ میری ذرا بھی فکر نہ کریں۔“ اس کی بیوی نے جواب دیا۔

ننگا

بس اسٹینڈ پر ہاف پینٹ پہنے ہوئے اس ناٹے (چھوٹے) قد کے پاگل کو وہاں پر کھڑے ٹیکسی ڈرائیور پریشان کررہے تھے۔ وہ پاگل انہیں غصے میں ماں، بہن کی گالیاں دیتا، اور وہ سب ہی ہی کرتے ہوئے دانت نکال دیتے۔

یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا۔ اتنے میں پڑھے لکھے شریف نظر آنے والے ایک شخص نے سب کو ڈانٹ کر وہاں سے بھگا دیا۔ میں نے سوچا کہ چلو کوئی توسامنے آیا اسے اس پریشانی سے نجات دلانے، پر میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ وہ شخص اس پاگل کا سر پکڑ کر اس کے چہرے کی پٹائی کرنے لگا۔ وہ پاگل چلاتا رہا اور ساتھ میں اسے گالیاں بھی دیتا رہا۔ اس پر اس شریف سے نظر آنے والے شخص نے بھڑک کر اس کی ہاف پینٹ کھول دی۔

اب وہ پاگل پوری طرح ننگا تھا اور اس کی اس حالت پر تماش بینوں کے پیٹ میں ہنستے ہنستے بل پڑگئے۔ اتنے میں ہی اس شریف نظر آنے والے شخص کی جوان پاگل بیٹی اپنے باپ کو کھوجتی ہوئی وہاں آپہنچی۔ تماش بینوں کی نظریں اب اس لڑکی کا جسم ناپنے لگیں، اور وہ شخص سرِعام ننگا ہوگیا۔

تبصرے (4) بند ہیں

Syed Ali Shazif Baqari May 25, 2015 02:54pm
very well done young man!!
Muhammad Ibrahim May 25, 2015 04:22pm
very good.Easy language and easy to understand.Really I have read such fictions after a long time.Thanks Alock Kumar and DAWN.
Ashiam Ali Malik May 25, 2015 04:53pm
beutifull wording , nice idea
satram sangi May 25, 2015 04:57pm
well written and very impressive.