کوٹلی مقبرہ میں کون دفن ہے؟

گجرنوالہ سے کچھ کلومیٹر دور ایک جنکشن ’موڑ ایمان آباد‘جی ٹی روڈ کو برصغیر کی ایک تاریخ اور قدیم لوک کہانیوں کو خاموشی سے اپنے دامن میں سمو رکھنےوالے ایک گاؤں سے ملاتا ہے۔

گاؤں ایمان آباد میں ایک گرودوارا، کچھ مندر اورایک ٹوٹی پھوٹی مسجد پرامن طور پر ساتھ ساتھ موجود ہیں۔

سیاح اور مصنف سلمان راشد کے خیال میں لودھی دور میں بننے والی یہ مسجد پاکستان کی سب سے پرانی مسجدوں میں سے ایک شمار ہو سکتی ہے۔

اسی طرح، اس چھوٹے سے گاؤں میں موجود روڑی صاحب گردوارا، تین شیو مندر اور ایک ہندو پانی ٹینک مغلیہ دور سے بھی پرانے ہیں۔

یہاں سے کچھ کلومیٹر دور مشرق کی جانب بڑھیں تو کوٹلی مقبرہ گاؤں میں چار میناروں پر مشتمل ایک مقبرہ آپ کو اپنے سحر میں جگڑ لے گا۔

کوٹلی مقبرہ کی جانب بڑھتے ہوئے کھیتوں میں سے ابھرتے اس مقبرے کو نظر انداز کیا جانا مشکل ہے۔

اس کے مینار سترہویں صدی کی مشہور عمارتوں مثلاً جہانگیری مقبرہ، دائی آنگا مسجد اور لاہور کی وزیر خان مسجدسے مماثلت رکھتے ہیں۔

راشد اپنی کتاب Gujranwala, The Glory That Was میں لکھتے ہیں

’ کسی بھی طرح کے تاریخی حوالہ کی غیر موجودگی میں قدرتی طور پر مقامی آبادی اسے روحانیت اور جنوں سے جوڑتی ہے‘۔

سلمان راشد نے یہ کتاب نوے کی دہائی کے اوائل میں لکھی تھی اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں مقبرےسے منسوب تصور میں تبدیلی رونما ہوئی ہے کیونکہ آس پاس موجود دیہات کے لوگ اب تسلیم کرنے لگے ہیں کہ یہ انسانوں کا بنایا گیا مقبرہ ہے ناکہ جنوں کا۔

وہ اب اس مقبرے کو اکبر دور کے قاضی القضا شیخ عبدالنبی سے منسوب کرتے ہیں۔

اس سوچ کی بنیاد ہمارے نامور ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق ہے۔ مثلاً احسان ایچ ندیم گجرانوالہ کے تاریخی مقامات پر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں۔

’یہ مقبرہ اکبر اعظم کے ایک استاد شیخ عبدالنبی کا ہے۔ صدر الصدور کے عہدے تک پہنچنے والے شیخ صاحب کو اس وقت مکہ معظمہ اور مدینہ جلا وطن کر دیا گیا جب شیخ فیضی اور ابولفضل نے شہنشاہ کو زہر دیا‘۔

’شیخ کو شہنشاہ کی جانب سے بلائے جانے تک وطن کا دوبارہ رخ نہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم، اکبر کی حکمرانی میں انڈیا کی بگڑتی صورتحال کی افواہیں ملنے پر شیخ نبی اجازت کی پروا کیے بنا ہی واپس آئے اور 1583 میں گجرات کے شہر احمد آباد میں رہنے لگے۔بعد میں شیخ کو گرفتار کر نے کے بعد ان کے حریف ابوفضل کی نگرانی میں قید کر دیا گیا‘۔

’ایک روایت ہے کہ شیخ کو قتل کیا گیا جبکہ دوسرے مقام پر ان کی موت قدرتی بتائی گئی۔تاہم یہ دونوں روایتیں متفق ہیں کہ ان کی موت 1584 میں ہوئی‘۔

احسان ایچ ندیم اپنے اسی مضمون میں آگے جا کر لکھتے ہیں مقبرے کے بارے میں کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں لیکن اگر عمارتی ڈھانچے کا موازنہ کیا جائے تو اسے سترہویں صدی میں شاجہاں کے دور (1658-1628)سے جوڑا جا سکتاہے۔

تاہم، کچھ تاریخی نوٹس کہتے ہیں کہ شیخ عبدالنبی 1583 میں فتح پور سکری میں قید ہوئے اور بعد میں یہیں انتقال ہوا۔

یہ بات بہت تعجب خیز لگتی ہے کہ ایک شہنشاہ کے ستائے قیدی کی لاش کو اتنا دور اور کن وجوہات کی بنا پر بھیجا جائے گا؟ اورانہیں اتنے وسیع و عریض بیابان میں کیوں دفنایا گیا؟ ہمارے ماہرین ان سوالوں کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہیں۔

تاہم، دستیاب تاریخی ریکارڈ کہتا ہے کہ شیخ عبدالنبی ہندوستانی ریاست ہریانہ کے علاقےنامول میں دفن ہیں اور یہ علاقہ فتح پور سکری سے زیادہ دور بھی نہیں ، جہاں ان کی قید کے دوران وفات ہوئی تھی۔

ایک اور مکتبہ فکر اس مقبرے کو شہاں جہاں اور اورنگزیب دور میں وزیر آباد کے گورنر دیوان عبدالنبی خان سے منسوب کرتا ہے ۔

ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر سیف الرحمان ڈار اور سلمان راشد بھی اسی خیال کی تائید کرتے ہیں۔

حتی کہ ڈاکٹر ڈار تو یہاں تک کہتے ہیں کہ نبی خان شہاجہاں دور میں وزیر اعظم نواب سعد اللہ خان کے پوتوں کے استاد تھے۔

تاہم، مستند تاریخی ریکارڈ کے اندر دنوں مغل حکمرانوں کے دور میں عبدالنبی کے نام سے کوئی مشہور گورنر نہیں ملتا۔

کم از کم دونوں حکمرانوں کی سوانح حیات تو اس نام کے معاملے پر خاموش ہیں۔

مستند تاریخ یہ ضرور بتاتی ہے کہ شاہجہاں کے دور میں مشہور درباری خواجہ صابر کا بیٹا عبدالنبی موجود تھا۔

اس ریکارڈ سے مزید پتہ چلتا ہے کہ خواجہ صابر کا انتقال 1645 لاہور میں ہوا اور ان کا مقبرہ مغلپورہ میں پاکستان ریلویز کی ورک شاپ کے ساتھ ہے۔

کوٹلی مقبرہ کی یہ خوبصورت یادگار برطانوی تاریخ دانوں اور ماہرین آثار قدیمہ کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی۔تقسیم بر صغیر کے بعد بھی حالات یہی رہے جس کی وجہ سے آج یہ عمارت مخدوش ہو چکی ہے۔

اس یادگار کو ناصرف سخت موسم،ماحول سے لڑنا پڑ رہا ہے بلکہ اس کا مقابلہ مقبرے کے نیچے چھپے خزانے کا سوچ کر یہاں کھدائیاں کرنے والے چوروں سے بھی ہے۔

دیہاتیوں کا دعوی ہے کہ گزشتہ سال نومبر میں کچھ نامعلوم افراد خود کو محکمہ آثار قدیمہ کے ٹھیکہ دار بتاتے ہوئے کچھ دنوں تک مقبرے کے قریب کیمپ لگائے موجود رہے تھے۔

ایک رات وہ مقبرے کے گنبد پر چڑھے اور وہاں سے کچھ نایاب اتار لیا۔ جب اگلے روز دیہاتیوں سے ان سے پوچھ گچھ کی تو معاملہ میڈیا اور پولیس تک جا پہنچا ۔

پولیس نے ان نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا، تاہم مزید کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

فیچر لکھنے والے عون علی لاہور کے ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں۔