اے پی سی میں بلوچ پشتون رقابت کی جھلک

29 مئ 2015
وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کا ایک منظر۔ —. فائل فوٹو اے پی پی
وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کا ایک منظر۔ —. فائل فوٹو اے پی پی

اسلام آباد: جمعرات کو منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کا مقصد پاک چائنا اقتصادی راہداری کے حوالے سے حکومت اور پارلیمنٹ میں موجود باقی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے کی راہ ہموار کرنا تھا۔

تاہم شرکاء میں سے ایک کی جانب سے نادانستہ طور پر کیا گیا تبصرہ اس بحث کو غیرمتوقع سمت میں لے گیا، جس کے نتیجے میں بلوچستان کی بلوچ اور پختون آبادی کا دہائیوں پرانا مسئلہ دوبارہ اُبھر آیا۔

جب نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو کو اقتصادی راہداری پر اپنے خدشات کے اظہار کو موقع دیا گیا تو انہوں نے اقتصادی راہداری کے مغربی راستے کی اہمیت پر بیس منٹ تک روشنی ڈالی۔ یہ راستہ خنجراب کو خیبرپختونخوا کے ذریعے گوادر سے ملاتا ہے۔

دیگر شرکاء اس معاملے پر بات کرنے کے لیے اپنی باری کا بے چینی کے ساتھ انتظار کررہے تھے۔ میر حاصل خان بزنجو نے اس اجلاس میں موجود بہت سے پختون رہنماؤں کو اس وقت حیران کردیا، جب انہوں نے موضوع سے ہٹ کر حکومت سے بلوچستان میں آباد افغان پناہ گزینوں کے مسئلے سے نمٹنے کا مطالبہ کیا۔

اس کانفرنس کے بعد میر حاصل بزنجو تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھے، لیکن اجلاس کے شرکاء میں سے ایک نے اجلاس میں میر بزنجو کے کہے ہوئے الفاظ دوہرائے، انہوں نے کہا تھا ’’میں حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ بلوچستان میں آباد افغانیوں کی وطن واپسی کا بندوبست کرے، اس لیے کہ وہ صوبے کی آبادی کو پریشان کررہے ہیں۔‘‘

میرحاصل بزنجو نے اقتصادی راہداری کے تحت بلوچستان میں آنے والی بھاری مقدار میں سرمایہ کاری کے حوالے سے کہا کہ ’’مجھے خدشہ ہے کہ ملازمتوں کی تلاش میں بہت سے پختون بلوچستان آئیں گے، جس سے بلوچ آبادی پر مزید دباؤ پڑے گا۔‘‘

انہوں نےمزید کہا کہ افغان پناہ گزین اور غیررجسٹرڈ پختونوں کے مسئلے کو مردم شماری سے قبل لازماً حل کرلیا جائے۔

واضح رہے کہ حکومت نے اگلے سال مارچ میں مردم شماری کا اعلان کیا ہے۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) کے سربراہ محمود خان اچکزئی خود کو اس معاملے سے علیحدہ نہ رکھ سکے اور انہوں نے مداخلت کرتے ہوئے میر بزنجو پر طنز کرتے ہوئے کہا ’’پختونوں کو افغانستان واپس بھیجنے سے آپ کی مراد یہ ہے کہ اس اجلاس میں موجود ہم سب پختونوں کو بھی ملک چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘

اچکزئی نے میر بزنجو کے الفاظ دوہراتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ ’’اسفند یار ولی، آفتاب شیرپاؤ اور پرویز خٹک سب ہی کی جڑیں افغانستان میں ہیں۔ ولی خان کے آباؤاجداد وہاں دفن ہیں اور ان کے بہت سے رشتہ دار پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف مسلسل آباد ہیں۔ آپ ہم سب کو افغانستان بھیجنا چاہتے ہیں۔‘‘

ان کی اس جوشیلی تقریر سے شرکاء بے ساختہ طور پر ہنس پڑے اور میرحاصل خان بزنجو دنگ رہ گئے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی درحقیقت بلوچستان کے حکمران اتحاد میں شراکت دار ہیں۔

اس معاملے کی تصدیق کرتے ہوئے مسلم لیگ ق کے سینیٹر مشاہد حسن نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ پختون مسئلہ کافی پرانا ہے، اور مختلف فورمز پر اس کو اُٹھایاجاچکا ہے۔

ایک ذیلی کمیٹی جس کے وہ 2005ء میں سربراہ تھے، کی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’جب وسائل کی تقسیم کا معاملہ سامنے آیا اور اسے اسمبلیوں میں پیش کیا گیا تو ہماری کمیٹی نے بلوچ اور پختونوں کے درمیان مساوات (نصف نصف) کا فارمولہ پیش کیا تھا۔‘‘

آخری وقت جب گوادر پورٹ کا منصوبہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں سامنے آیا تو بلوچ قوم پرستوں نے اس معاملے کو اُٹھایا تھا، اور بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ اس علاقے میں غیربلوچوں کی آمد پر اعتراض کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں