لاہور: پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے وفاقی حکومت کو غیر قانونی طور پر عوام سے بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کیے جانے والے سرچارجز واپس کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔

ان سرچارجز میں ایکولائزیشن سرچارج، قرض کی ادائیگیوں کے سرچارج، یونیورسل اوبلیگیشن فنڈ سرچارج اور نیلم جہلم سرچارج شامل ہے۔

گزشتہ روز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے ڈیژنل بینچ نے ایک سیمنٹ فیکٹری اور دیگر کی جانب سے دائر کی جانے والی انٹرا کورٹ اپیل کا فیصلہ سنایا۔

درخواست گزاروں کی جانب سے وکلاء کونسل کے سربراہ ایڈووکیٹ اظہر صدیقی نے اپنے دلائل دیتے ہوئے 1997 کے نیپرا ایکٹ کی دفعہ 31(5) کو آئین کے منافی قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی فراہمی ملک کے آئین کے آرٹیکل 9 اور 14 کے مطابق شہریوں کا بنیادی حق ہے جبکہ مستقل طور پر لائن کے نقصانات، چوری اور انتظامی نقصان کو بجلی کے بلوں میں شامل کرنا آئین کے آرٹیکل 3 کے مطابق شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

بینچ نے حکومت اور نیپرا کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ حکم نامہ جاری ہونے کے 3 ماہ میں صارفین سے وصول کیے گئے سرچارجز کو واپس یا آئندہ کے بلوں میں ایڈجیسٹ کرے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai May 31, 2015 12:40am
بہت اعلٰی فیصلہ ھے ہم لاہور ہائیکورٹ کی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ھیں اور امید کرتے ھیں کہ حکومت اس فیصلے پر مکمل عمل درامد کروائیگی اور اس فیصلے کے حلاف سپریم کورٹ جانے کی کوشش نہیں کریگی